گزشتہ برس جرمنی آنے والے لاکھوں مہاجرین کی اکثریت کا تعلق مسلمان ممالک سے ہےجو اپنوں سے دور پہلی بار پردیس ميں عيد منا رہے ہيں۔ یہ لوگ اب اپنی نئی زندگی سے کافی مطمئن ہيں ليکن اپنوں سے دور ہونے کی کہيں کچھ خلش باقی ہے۔
اشتہار
شامی پناہ گزين مصطفیٰ شيخ حبيب کی يہ جرمنی ميں پہلی عيد الفطر ہے اور اس موقع پر وہ ملے جُلے رجحانات رکھتا ہے۔ چھتيس سالہ کُرد اپنی اہليہ اور چار بچوں کے ہمراہ جرمن دارالحکومت برلن کے ايک مہاجر کيمپ ميں دو کمروں کے ایک مکان ميں رہتا ہے۔ اس کے بقول عيد کے پر مسرت موقع پر اپنوں سے دور ہونا کچھ عجيب سا ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے، ’’ہم يہاں ہيں اور سلامت ہيں۔ يہ اللہ کا کرم ہے۔‘‘
سياسی پناہ کے ليے گزشتہ برس ايک ملين سے زائد مہاجرين جرمنی آئے تھے۔ مہاجرين کی بھاری اکثريت کا تعلق شام، عراق اور افغانستان جيسے مسلمان ممالک سے ہے۔ روايتی طور پر ماہ رمضان اور بالخصوص عيد الفطر رشتہ داروں کے ساتھ منائی جاتی ہے تاہم مہاجر کيمپوں ميں عيد منانا ذرا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ نہ تو لوگ رمضان کے دوران اور عيد پر اپنے من پسند کھانے بنا سکتے ہيں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے پيسے ہوتے ہيں کہ وہ روايات کے مطابق تحفے تحائف اور نئے کپڑے خريد سکيں۔
برلن کے اس مہاجر کيمپ ميں شيخ حبيب کی اہليہ سوزن شيخ نے آج صبح بچوں ميں مٹھائياں، چاکليٹيں اور مشروبات تقسيم کيے۔ کئی بالغوں نے ايک مہينے بعد سہ پہر کا کھانا کيمپ کے کيفے ٹيريا ميں ساتھ بيٹھ کر کھايا، کھانے ميں چنوں کا سالن، ٹماٹر، پياز اور روٹی تھی۔
جرمنی میں عیدالفطر کی رونقیں
جرمنی میں کچھ مسلمانوں نے عیدالفطر منگل کو منائی، جن میں زیادہ تر ترک مسلمان شامل تھے۔ دیگر مسلم حلقے یہ تہوار بدھ کو منا رہے ہیں۔ تمام چھوٹے بڑے شہروں میں نمازِ عید کے بڑے بڑے اجتماعات ہوئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
عید کی خوشیاں، مِکّی ماؤس کے ساتھ
جرمن دارالحکومت برلن کے علاقے نیو کولون میں عید الفطر کے موقع پر ایک مسلمان ماں ایک سٹریٹ فیسٹیول کے دوران اپنے بچوں کی تصاویر مِکّی اور مِنی ماؤس کے کرداروں کے ساتھ اُتار رہی ہے۔ برلن میں ہزارہا مسلمان آباد ہیں، جن کی بڑی تعداد ترک اور عرب باشندوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
عید پر مٹھائیاں
عید الفطر کا استقبال رنگا رنگ اور مختلف النوع ذائقوں والی مٹھائیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ منظر بھی برلن کے علاقے نیو کولون کا ہے، جہاں پناہ کی تلاش میں آنے والے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ وہاں سٹریٹ فیسٹیول میں شریک ایک شخص نے اپنے ہاتھ میں چینی کی پیسٹریاں اُٹھا رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
انواع و اقسام کے کھانے
مسلمان ماہ رمضان میں سحری سے لے کر افطاری تک کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر قسم قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں۔ برلن کے علاقے نیو کولون میں ایک شخص ’فلافل‘ تیار کر رہا ہے، جنہیں خاص طور پرعرب دنیا میں شوق سے کھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
پناہ کے متلاشیوں کی عید
شامی پناہ گزین احمد شابو نے اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ عیدالفطر کا تہوار منگل کو منایا۔ یہ تصویر جرمن دارالحکومت برلن کے علاقے نیو کولون میں ایک مسجد کے قریب اُتاری گئی۔ برلن کے اس علاقے میں زیادہ تر عرب دنیا سے آئے ہوئے تارکینِ وطن آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schreiber
ہیمبرگ میں نمازِ عید
جرمنی کے شمال میں واقع بندرگاہی شہر ہیمبرگ کے النور مرکز کی جانب سے عید کی نماز کا اہتمام وسیع و عریض ’اسپورٹس ہال‘ میں کیا گیا، جہاں ہر رنگ و نسل کے اور ملکوں ملکوں سے آئے ہوئے مسلمانوں نے مل کر عید کی نماز پڑھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Schulze
ایک ہال میں ہزاروں نمازی
ہیمبرگ کے اسلامی مرکز النور کی جانب سے شہر کے اسپورٹس ہال میں عید کی نماز کا بند و بست کیا گیا تھا، جہاں ایک ساتھ تین ہزار مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس بار یہاں مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے نمازِ عید ادا کی گئی۔ عید کا خطبہ نہ صرف عربی بلکہ جرمن زبان میں بھی دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Schulze
شکرانے کا موقع
ہیمبرگ کے اسپورٹس ہال میں نمازِ عید کا ایک اور منظر۔ عیدالفطر کے تہوار پر مسلمان خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ماہِ رمضان کے دوران اُنہیں استقامت کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Schulze
بون میں انڈونیشی مسلمانوں کی عید
جرمن شہر بون میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوان عیدالفطر کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تصاویر اُتار رہے ہیں۔ یہ تہوار آپس میں اجتماعی طور پر خوشی منانے اور آپس میں مل بیٹھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
تصویر: DW/Y. Farid
خواتین اور بچوں کی خوشی دیدنی
جرمنی بھر کی مساجد میں خواتین کے لیے بھی نمازِ عید کا الگ اہتمام کیا گیا تھا۔ جرمن شہر بون کی اس تصویر میں انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ عید کی نماز ادا کر رہی ہیں۔
تصویر: DW/Y. Farid
میٹھی عید
عیدالفطرکو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے۔ جرمن زبان میں اسے Zuckerfest یعنی ’چینی کا تہوار‘ یا ’میٹھا تہوار‘ کہتے ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر کولون کی ایک مسجد کے امام ایک نمازی سے عید مل رہے ہیں۔
تصویر: DW/M. Smajic
10 تصاویر1 | 10
جرمنی میں اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کے باوجود یہاں موجود زیادہ تر پناہ گزين اپنی موجودہ زندگی کو سابقہ زندگی پر فوقيت ديتے ہيں۔ حبيب شام ميں ايک ٹيکسی ڈرائيور کی حيثيت سے ملازمت کيا کرتا تھا۔ اس نے بتايا، ’’ہم يہاں بہت خوش ہيں۔ ميں شام واپس جانے کا سوچ بھی نہيں سکتا۔‘‘ الرقہ سے تعلق رکھنے والا يہ شامی مہاجر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے آبائی ملک ميں جاری خانہ جنگی سے فرار ہو کر يورپ آيا ہے۔ شام سے نقل مکانی کے بعد اس نے دو برس شمالی عراق ميں گزارے اور وہ دس ماہ قبل ہی جرمنی پہنچا ہے۔ حبيب اور اس کے اہل خانہ نے شام چھوڑنے کا فيصلہ اس وقت کيا، جب ايک بم حملے ميں حبيب کے والد چل بسے اور ايک مختلف بم حملے ميں اس کا بارہ سالہ بيٹا محمد بری طرح زخمی ہو گيا۔
ان دنوں مصطفیٰ شيخ حبيب برلن ميں سياسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے بعد اب انٹرويو کا منتظر ہے۔ فوری طور پر تو کوئی امکان نہيں کہ وہ اور اس کے اہل خانہ کسی بڑے مکان ميں منتقل ہو سکيں تاہم يہ سب پر اميد ضرور ہيں۔ سوزن دوبارہ ملازمت کرنا چاہتی ہے۔ يہ خاندان کافی خوش ہے کہ ان کے بچے اسکول جا رہے ہيں اور انہيں زندگی کی چھوٹی چھوٹی سہولتيں ميسر ہيں۔
دريں اثناء جرمن وزير خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے دنيا بھر کے تمام مسلمانوں کو عيد مبارک کا پيغام ديا ہے۔ انہوں نے بالخصوص کہا کہ اس بار جرمنی ميں معمول سے کہيں زيادہ مسلمان عيد منا رہے ہيں۔ اس موقع پر اشٹائن مائر نے کہا کہ جنگ اور تشدد بہت سے لوگوں کوخطرناک راستوں سے فرار ہونے پر مجبور کر رہے ہيں۔ ان کے بقول وہ اس موقع پر بالخصوص ايسے لوگوں کے بارے ميں سوچ رہے ہيں۔