يورپ پہنچنے والے مہاجرين کو مقامی افراد کے قريب لانے کی کئی کوششيں جاری ہيں۔ ايسی ہی ايک کوشش برطانوی اينيکے ايلوس نے حال ہی ميں شروع کی ہے، جس کا مقصد پناہ کے متلاشی افراد اور مقامی رضاکاروں کے درميان روابط بڑھانا ہے۔
اشتہار
سوڈانی مہاجر ابو ہارون فرانسيسی شہر کيلے سے ايک مسافر بس کے نيچے چھپ کر برطانيہ پہنچا تھا۔ پناہ کے سفر ميں جب وہ سن 2010 ميں برطانيہ گيا، تو پہنچتے ہی اسے پوليس والوں کا سامنا ہوا۔ ہارون اس وقت کافی ڈرا ہوا تھا کہ کہيں وہ پوليس والے اسے ملک بدر نہ کر ديں۔ اسے انگريزی زبان بھی نہيں آتی تھی اور يوں وہ اپنی بات تک نہ کر سکا۔ آج اس کی عمر تيئیس برس ہے اور وہ ايک انجان ملک و معاشرے ميں اپنے ابتدائی دنوں کے بارے ميں تلخ ياديں رکھتا ہے۔
جب ابو ہارون سوڈان کے دارفور خطے سے فرار ہوا، تو اس وقت وہاں جنگ جاری تھی۔ لندن آمد پر گرچہ اسے ايک نئی زندگی کی اميد ہو گئی تھی تاہم زبان کا نہ آنا اور ديگر مسائل کے سبب وہ کافی پريشان بھی تھا۔ ہارون نے ہمت نہ ہاری اور آئندہ کچھ برس زبان سيکھنے اور فٹ بال کھيل کر وقت بتانے ميں صرف کيے۔ پھر ايک دن اچانک اسے ايک برطانوی خاتون اينيکے ايلوس کی طرف سے ايک خط موصول ہوا جس ميں ايلوس نے ہارون کو ايک پارک ميں چہل قدمی کی دعوت دی تھی۔ ہيمپسٹيڈ ہيلتھ پارک ميں اس ملاقات کا انتظام در اصل ايک برطانوی امدادی تنظيم ’فريڈم فرام ٹارچر‘ نے کيا تھا۔ ہارون کی ہی عمر کے دو بچوں کی والدہ ايلوس اور ہارون کی ديکھتے ہی ديکھتے قريبی دوستی ہو گئی اور ايک مہاجر ايلوس کے گھر کا رکن سا بن گيا۔
بعد ازاں ايلوس نے ’ہوسٹ نيشن‘ کے نام سے ايک ويب سائٹ لانچ کی، جو مہاجرين اور ان کے علاقوں ميں سرگرم رضاکاروں کے درميان دوستی کرانے ميں مدد فراہم کرتی ہے۔ ايلوس بتاتی ہيں، ’’بہت سے پناہ گزينوں کے ليے برطانوی شہريوں سے ملاقات کا واحد راستہ يہی ہے۔‘‘ ان کے بقول پناہ کے متلاشی افراد ميں اکيلے پن کا احساس کثرت سے پايا جاتا ہے، جس کے اسباب زبان کا نہ آنا، غربت اور سماجی تعاون کی کمی ہيں۔
ہوسٹ نيشن کی بانی برطانوی خاتون اينيکے ايلوس کے مطابق لندن ميں کئی ايسے خاندان ہيں، جو نئے تارکين وطن کی مدد کرنا چاہتے ہيں اور وہ در اصل اس صورت حال کا مثبت پہلو ديکھتے ہيں۔ رواں سال مارچ ميں ہوسٹ نيشن کی ويب سائٹ لانچ کرنے کے بعد اب ايلوس کی کوشش ہے کہ لندن بھر ميں ايسے رابطے قائم کيے جائيں جن کی مدد سے مہاجرين اور مقامی رضاکار قريب آ سکيں۔
ایسی مشہور شخصیات جو کبھی پناہ گزیں بھی رہیں
اپنے ملک سے فرار ہونے والے اور در در بھٹکنے والے لوگوں کو پناہ گزین کہا جاتا ہے۔ آئیے ملتے ہیں دس ایسی شخصیات سے جو پناہ گزین تو تھیں لیکن موسیقی، اداکاری، سائنس اور سیاست کے میدان میں وہ بلندیوں تک پہنچیں۔
تصویر: Imago/United Archives International
مارلینے ڈیٹريش
خوابیدہ آنکھوں اور دل لبھانے والی آواز کی مالک جرمن گلوکارہ اور اداکارہ مارلینے ڈیٹريش نازی جرمنی کو چھوڑ کرامریکا چلی گئی تھیں۔ سن 1939 میں انہوں نے امریکا کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ وہ ایک اہم پناہ گزین پروفائل تھیں، جس نے ہٹلر کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ نازی جرمنی میں ان کی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن انہوں نے کہا تھا، ’’وہ جرمنی میں پیدا ہوئی ہیں اور ہمیشہ جرمن ہی رہیں گی۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
ہنری کسنجر
بین الاقوامی امور کے عالم اور امریکا کے 56 ویں وزیر خارجہ کی پیدائش جرمن ریاست باویریا میں ہوئی تھی۔ انہیں بھی نازی مظالم سے بچنے کے لیے 1938 میں جرمنی چھوڑنا پڑا تھا۔ امریکی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رنگ دینے والے کسنجر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی خود کو جرمنی سے جدا محسوس نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
میڈلين البرائٹ
میڈلين البرائٹ امریکی وزیر خارجہ بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ سن 1997 سے 2001 تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ ان کی پیدائش جدید دور کے چیک جمہوریہ میں ہوئی تھی۔ سن 1948 میں جب وہاں حکومت پر کمیونسٹوں کا کنٹرول ہو گیا تو میڈلين کے خاندان کو بھاگ کر امریکا جانا پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
البرٹ آئن سٹائن
نظریہ اضافیت کے لیے مشہور جرمن یہودی نوبل یافتہ ماہر طبعیات البرٹ آئن سٹائن سن 1933 میں امریکا کے دورے پر تھے، جب ان پر یہ واضح ہو گیا کہ وہ واپس نازی جرمنی نہیں لوٹ سکتے ہیں۔ چودہ مارچ سن 1879 کو جرمن شہر اُلم میں پیدا ہونے والے ممتاز طبیعات دان آئن سٹائن اٹھارہ اپریل 1955 میں امریکی ریاست نیو جرسی کے شہر پرنسٹن میں انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: Imago/United Archives International
جارج وائڈنفلڈ
برطانوی یہودی مصنف وائڈنفلڈ کی پیدائش سن 1919 میں ویانا میں ہوئی تھی۔ جب نازیوں نے آسٹریا کو اپنا حصہ بنا لیا تو وہ لندن چلے گئے۔ انہوں نے اپنی ایک پبلشنگ کمپنی بھی کھولی اور اسرائیل کے پہلے صدر کے چیف آف اسٹاف بھی رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N.Bachmann
بیلا بارتوک
20 ویں صدی کے ہنگرئین موسیقار بیلا بارتوک یہودی نہیں تھے لیکن وہ نازی جرمنی اور یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے مخالف تھے۔ سن 1940 میں انہیں امریکا جانا پڑا۔ وہ خود کو تمام تر تنازعات و اختلافات سے ماوراء قرار دیتے ہوئے امن و سلامتی کا پرچار کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images
مِلوس فورمین
مشہور فلم ڈائریکٹر ملوس فورمین سن 1968 میں پراگ میں پیدا ہوئے۔ انقلاب کے بعد انہیں اس وقت کے چیكوسلوواكيا چھوڑ کر امریکا میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔ مِیلوس کو ان کی دو عالمی شہرت یافتہ فلموں کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت ملی۔ One Flew Over the Cuckoo's Nest اور Amadeus پر انہیں آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/V. Dargent
ازابیل ایندے
سن انیس سو تہتر میں چلی کے صدر سلواڈور ایندے کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اسی دوران وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ تب ان کی بھتیجی ازابیل کو وینزویلا میں پناہ حاصل کرنا پڑ گئی تھی۔ بعدازاں انہوں نے امریکا سکونت اختیار کر لی تھی۔ مصنفہ کے طور پر انہیں بہت شہرت ملی۔ اس طلسمی حقیقت نگار مصننفہ کے دو ناولوں House of the Spirits اور Eva Luna کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔
تصویر: Koen van Weel/AFP/Getty Images
مريم مکیبا
مريم مكیبا جنہیں ’ماما افریقہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، امریکا کے دورے پر تھی جب جنوبی افریقہ کی حکومت نے نسلی عصبیت پر مبنی اس وقت کی ملکی حکومت کے خلاف مہم چلانے پر ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا۔ جنوبی افریقہ میں اس حکومت کے اختتام تک مکیبا نے کئی برسوں تک امریکا اور جمہوریہ گنی میں زندگی بسر کی۔
تصویر: Getty Images
سِٹنگ بُل
ٹاٹانكا ايوٹیک یعنی سِٹنگ بُل امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور مقامی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے والے سٹنگ بل کو سن 1877 سے سن 1881 تک پناہ گزین کے طور پر کینیڈا میں رہنا پڑا تھا۔