مہاجرين سے لدی کشتيوں کو واپس بھيج دينا غير قانونی ہے، رپورٹ
عاصم سلیم
3 مئی 2017
ايک تازہ رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا گيا ہے کہ پناہ گزينوں کی جانب سے خطرناک سمندری راستے اختيار کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کے ليے ساحلوں سے ان کی کشتيوں کو واپس کر ديا غير قانونی فعل ہے۔
اشتہار
مختلف ممالک کے ساحلوں اور بندرگاہوں پر پہنچنے والی پناہ گزينوں سے لدی کشتيوں کو واپس کر دينے کی پاليسی بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی ہے۔ يہ بات آسٹريلوی شہر سڈنی ميں پناہ گزينوں سے متعلق بين الاقوامی قوانين پر نظر رکھنے والے ’اينڈرو اينڈ ريناٹا سينٹر‘ نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنی ايک تازہ رپورٹ ميں کہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق آسٹريليا اور چند يورپی رياستوں کی جانب سے اپنائی جانے والی ايسی پاليسيوں کی قانونی حيثيت واضح نہيں اور نہ ہی ان پر طويل المدتی بنيادوں پر عمل درآمد ممکن ہے۔
اس رپورٹ کی مصنفہ پروفيسر وايوليٹا مورينو ليکس کا کہنا ہے کہ مہاجرين کی حوصلہ شکنی اور ان کی راہ ميں رکاوٹيں کھڑی کرنے کی پاليسيوں سے جانيں بچتی نہيں بلکہ ان کی وجہ سے جنگ و جدل اور مظالم سے فرار ہونے والے افراد کے ليے مزيد دشوارياں پيدا ہو جاتی ہيں۔ ان کے بقول ايسی پاليسيوں سے مہاجرين کا بحران مزيد شدت تو اختيار کر سکتا ہے ليکن اس کا حل ممکن نہيں۔
رپورٹ ميں لکھا ہے کہ يورپی يونين اور آسٹريليا کی جانب سے اپنائی جانے والی يہ پاليسی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ’اينڈرو اينڈ ريناٹا سينٹر‘ کی رپورٹ ميں مزيد کہا گيا ہے کہ مہاجرين کے بحران کے حل کے ليے ’عسکری پاليسياں‘ ترک کر کے انسانی بنيادوں پر امداد کی ايک جامع پاليسی اپنائی جانی چاہيے۔ مصنفہ پروفيسر وايوليٹا مورينو ليکس کے مطابق ايسی پاليسيوں کی غير واضح قانونی حيثيت کے باوجود اس ضمن ميں با معنی بحث کا مکمل فقدان ’سب سے زيادہ پريشان کن‘ بات ہے۔
آسٹريلوی حکام نے مہاجرين کی کشتيوں کو واپس کرنے کا عمل ايک باقاعدہ آپريشن کے تحت سن 2013 ميں شروع کيا تھا۔ اس وقت سے اب تک تيس کشتيوں کو واپس کيا جا چکا ہے اور حکام دعویٰ کرتے ہيں کہ ان کی ايسی کارروائيوں کے نتيجے ميں تاحال کوئی مہاجر ہلاک نہيں ہوا۔ يہ امر اہم ہے کہ سن 2001 سے سن 2013 کے درميان تقريباً دو ہزار پناہ گزين سمندری راستوں سے آسٹريليا تک پہنچنے کی کوششوں کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ رپورٹ ميں يورپی ايجنسيوں کو بھی تنقيد کا نشانہ بنايا گيا ہے۔ مسودے کے مطابق انسانی جانيں بچانے کے دعوے کے باوجود يورپی ريسکيو ايجنسيوں کی توجہ بارڈر سکيورٹی اور غير قانونی ہجرت کو کنٹرول کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔
2000ء کے آغاز سے اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سمندروں ميں ہلاک ہو چکے ہيں، جن میں اکثريت پناہ گزين تھے۔
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔