مہاجرين يورپ پہنچنے کے ليے کون سے راستے اختيار کر رہے ہيں؟
عاصم سلیم
1 مئی 2017
مہاجرين يورپ تک پہنچنے کے ليے متعدد زمينی و سمندری راستوں کا انتخاب کر رہے ہيں۔ اس سلسلے ميں تازہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہيں کہ گرچہ يورپ کی طرف ہجرت کافی حد تک محدود ہو گئی ہے تاہم يہ قطعی ختم نہيں ہوئی ہے۔
اشتہار
سال رواں کے دوران جنوری سے اپريل کے اواخر تک 44,059 مہاجرين مختلف سمندری راستوں سے يورپی براعظم پہنچ چکے ہيں جبکہ اسی دوران 1,092 بحيرہ روم کی بے رحم موجوں کی نظر ہو چکے ہيں۔ يورپی يونين کی بارڈر سکيورٹی ايجنسی فرنٹيکس کے مطابق اس سال يورپ پہنچنے والوں ميں تقريباً چھبيس فيصد بچے، سولہ فيصد عورتيں اور اٹھاون فيصد مرد شامل ہيں۔
يورپ پہنچنے کے ليے پناہ گزين مختلف راستے اختيار کرتے ہيں۔ فرنٹيکس کے مطابق اس سلسلے ميں سات سے آٹھ راستے ايسے ہيں، جنہيں آج کل بھی کثرت سے استعمال کيا جاتا ہے۔
مغربی بلقان روٹ
رواں سال جنوری تا اپريل اس روٹ سے 3,080 مہاجرين غير قانونی طور پر سرحديں پار کرتے ہوئے يورپی براعظم تک پہنچے۔ مغربی بلقان ممالک سے گزرنے والا يہ روٹ استعمال کرنے والوں ميں افغان، پاکستانی اور شامی شہری سر فہرست رہے۔ اس عرصے میں 1,214 افغان، 862 پاکستانی اور 289 شامی مہاجرين نے يہ راستہ استعمال کيا۔
بحيرہ روم کا مشرقی روٹ
اکثريتی طور پر شامی، عراقی اور پاکستانی تارکين وطن يورپ تک غير قانونی انداز ميں رسائی کے ليے اس روٹ کا استعمال کیا۔ رواں سال جنوری تا مارچ بُحيرہ روم کے مشرقی روٹ سے تقريباً پانچ ہزار دو سو تارکين وطن يورپ پہنچے۔ ان ميں 1,916 شامی، 521 پاکستانی اور 453 عراقی سرفہرست رہے۔
مشرقی ممالک والا زمينی روٹ
سرحدی بندشوں کے سبب يہ روٹ مقابلتاً کم استعمال ہوا۔ رواں سال کے پہلے دو ماہ ميں صرف اسّی افراد اس راستے وسطی يورپ تک پہنچے، جن ميں بارہ ترک، دس ويت نامی اور دس بنگلہ ديشی شہری شامل تھے۔
وسطی بُحيرہ روم روٹ
پچھلے سال کی طرح سن 2017 ميں بھی يورپ پہنچنے کے ليے سب سے زيادہ مہاجرين نے يہی راستہ اختيار کيا۔ پہلے تين ماہ ميں چوبيس ہزار سے زائد مہاجرين ليبيا سے اطالوی ساحلوں تک پہنچ چکے ہيں، جن ميں افريقی ممالک گنی اور نائجيريا کے افراد نماياں رہے۔ ان دونوں ملکوں سے تين، تين ہزار سے زيادہ پناہ گزين وسطی بحيرہ روم والے روٹ سے غير قانونی طريقہ ہائے کار اختيار کرتے ہوئے يورپ پہنچے۔ اسی روٹ سے تقريباً تين ہزار بنگلہ ديشی شہری بھی يورپ پہنچے۔
مغربی بُحيرہ روم روٹ
سال رواں کے پہلے دو ماہ ميں اس روٹ سے تقريباً تين ہزار مہاجرين يورپ پہنچے۔ اسپين تک رسائی ميں افريقی ممالک آئيوری کوسٹ، گنی اور کيمرون کے پناہ گزين نماياں ہيں۔
مغربی افريقی روٹ
اکثريتی طور پر افريقی ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزين يہ روٹ استعمال کرتے ہوئےکناری جزائر پہنچتے ہيں۔ سال کے پہلے دو ماہ ميں لگ بھگ پچھتر تارکين وطن اس راستے سے يورپ پہنچنے ميں کامياب رہے، جن ميں آئيوری کوسٹ، گنی اور مراکش کے پناہ گزين نماياں رہے۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔