’مہاجرين کو کيمپوں کے بجائے جيلوں ميں رکھنا بہتر ہے‘
عاصم سلیم
22 نومبر 2017
ہسپانوی حکومت نے کشتيوں کی مدد سے غير قانونی طور پر اپنی سرزمين تک پہنچنے والے قريب پانچ سو تارکين وطن کو حراست ميں رکھنے کا دفاع کيا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظيموں کی جانب سے اس پر تنقيد جاری ہے۔
اشتہار
ہسپانوی وزير داخلہ نے انسانی حقوق کی تنظيموں کی تنقيد پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’’ہم سمجھتے ہيں کہ ديگر ملکوں کی طرح مہاجرين کو کيمپوں ميں رکھنے سے کہيں بہتر ہے کہ انہيں ايسے کسی حراستی مرکز ميں رکھا جائے، جو جديد ترين ٹيکنالوجی، سونے کے انتظام، نہانے دھونے کے بندوبست اور ديگر سہوليات سے ليس ہو۔‘‘ خوان اگناسيو زوئيڈو نے يہ بيان منگل کو ايک مقامی ريڈيو اسٹيشن پر بات چيت کے دوران ديا۔
گزشتہ جمعرات سے لے کر اب تک تقريباً ايک ہزار غير قانونی تارکين وطن جنوبی اسپين پہنچ چکے ہيں۔ ان کی اکثريت کا تعلق شمالی افریقی ملک الجزائر سے ہے۔ کشتيوں کے ذريعے ہسپانوی ساحلوں تک پہنچنے والے تقريباً نصف تارکين وطن کو ملک کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں سے حراست ميں ليا گيا، اور انہيں ملاگا کے قريب آرچيڈونا نامی شہر کے ايک نئے تعمير شدہ حراستی مرکز ميں منتقل کر ديا گيا ہے۔ مہاجرين کے حقوق کے ليے مقامی سطح پر سرگرم گروپ ’ملاگا اکوگے‘ کے سربراہ الیخاندرو کورٹينا کے مطابق وہ اس عمل کے سخت خلاف ہيں۔
يہ امر بھی اہم ہے کہ اسپين ميں غير قانونی طور پر پہنچنے والے تارکين وطن کو عام طور پر پہلے حراستی مراکز ميں ہی رکھا جاتا ہے جس دوران ان کی شناخت اور ابتدائی دستاويزی کارروائی کی جاتی ہے۔ بعد ازاں شناخت اور اندراج کے بعد انہيں مہاجر کيمپوں ميں بھيج ديا جاتا ہے، جہاں ان کی سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ہوتی ہے۔
بين الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (IOM) کے مطابق اس سال يکم جنوری سے لے کر نومبر کے وسط تک 17,687 مہاجرين اسپين پہنچ چکے ہيں جبکہ گزشتہ برس اسی عرصے ميں 5,445 مہاجرين وہاں پہنچے تھے۔ اس سال اسی دورانيے ميں اٹلی پہنچنے والے غير قانونی مہاجرين کی کل تعداد 114,000 ہے اور جب کہ پچیس ہزار کے قریب مہاجرين يونان بھی پہنچے۔ اسپين ميں مہاجرين کی آمد کا سلسلہ تيزی سے بڑھ رہا ہے۔
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔