ترکی اور يونان کی سرحد پر حالات بدستور کشيدہ ہيں۔ يونان ميں غير قانونی طور پر داخل ہونے والے تارکين وطن کو پکڑنے کے ليے حکام سرحدی دیہات کے رہائيشيوں کی مدد سے کام کر رہے ہيں۔
اشتہار
يونانی حکام ترکی سے غير قانونی طريقوں سے ہجرت کر کے يونان کے سرحدی ديہاتوں ميں چپھنے والے تارکين وطن کو پکڑنے کے ليے ديہاتيوں کی مدد لے رہے ہيں۔ خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی تازہ رپورٹوں کے مطابق کئی واقعات ميں مقامی حکام اس پہاڑی علاقے کی جغرافيہ سے واقف ديہاتيوں کی مدد سے مختلف مقامات پر چھپے ہوئے تارکين وطن تک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔ ترکی و يونان کے درميان 212 کلوميٹر کی سرحد کے زيادہ تر حصے پر باڑ نصب ہے۔ تارکين وطن يورپ پہنچنے کی کوششوں ميں مختلف مقامات پر اسی باڑ کو کاٹ کر دريائے ايورس پار کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔
يونانی ديہات اموريو دريائے ايوروس سے صرف تين سو ميٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس علاقے کے ايک کميونٹی ليڈر پنايوٹس اگيلدارکس کا کہنا ہے کہ وہ اور ديگر رضاکار گزر گاہوں پر پہرہ ديتے ہيں۔ ’’ہم ان دنوں گزر گاہوں کی نگرانی کرتے ہيں، جہاں سے تارکين وطن آتے ہيں۔‘‘ ان کے بقول دريا پار کر کے آنے والے تارکين وطن کو وہ وہاں پکڑ ليتے ہيں اور پھر پوليس کو مطلع کر ديتے ہيں۔ بعد ازاں حکام ان تارکين وطن کو گرفتار کر کے لے جاتے ہيں۔ ’’پھر يہ پوليس کا معاملہ ہے۔ ہميں اس سے کوئی غرض نہيں کہ وہ انہيں کہاں لے جاتے ہيں۔ ہم تو صرف پوليس اور فوج کی مدد کر رہے ہيں۔‘‘
ايک وقت تھا جب يونان کے انہی سرحدی ديہاتوں کے لوگ مہاجرين و پناہ گزينوں کی مدد کرتے تھے۔ خطرناک زمينی سفر طے کرنے کے بعد تھکے ہارے تارکين وطن کو مقامی افراد کھانے پينے کی اشياء اور ديگر سہوليات فراہم کرتے تھے۔ يہ سب انسانی ہمدردی کے ناتے کيا جاتا تھا۔ تاہم اب يہ ہمدردی ختم ہو چکی ہے۔ يونانی جزائر اور سرحدی ديہاتوں ميں اب تارکين وطن خوش آمديد نہيں۔
ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے فروری کے اواخر ميں کہا تھا کہ يورپ جانے والے تارکين وطن کو اب نہيں روکا جائے گا۔ اس کے رد عمل ميں ترک يونان سرحد پر ہزارہا کی تعداد ميں تارکين وطن کی آمد شروع ہو گئی۔ چند اندازوں کے مطابق ان دنوں لگ بھگ پينتيس ہزار تارکين وطن يورپ پہنچنے کی کوششوں کے سلسلے ميں ترک يونان سرحد پر ہيں۔ يونانی حکومت انہيں وہيں روکنے کے ليے کارروائياں جاری رکھی ہوئی ہے، جس سبب نقرہ اور ايتھنز ميں بھی کشيدگی بڑھ گئی ہے۔
مہاجرين کا يونان ميں داخلہ روکنے کے ليے اس وقت سرحدی علاقوں ميں يونانی فوجی يونٹس بھی تعينات ہيں۔ مقامی ريستورانوں کی ايسوسی ايشن کے سربراہ نيکوس جيورجياڈس نے بتايا کہ ان کی ايسوسی ايشن چار مختلف مقامات پر تعينات يونٹس کو کھانے پينے کی اشياء فراہم کر رہی ہے۔ ’’انہوں نے ہم سے ماسک اور دستانے بھی مانگے ہيں اور ہم کوشش کر رہے ہيں کہ انہيں يہ چيزيں فراہم کر سکيں۔‘‘
يونانی حکام کے مطابق پچھلے ايک ہفتے ميں غير قانونی طور پر يونان ميں داخل ہونے والے 252 تارکين وطن کو پکڑا جا چکا ہے۔ ان ميں چونسٹھ فيصد افغان، انيس فيصد پاکستانی، پانچ فيصد ترک، چار فيصد شامی اور بقيہ ايتھوپيا، بنگلہ ديش، مصر، ايران اور مراکش کے شہری شامل ہيں۔
مہاجرين کی ’دوزخ‘ موريا کيمپ کے آس پاس زندگی
يونان نے گنجائش سے زيادہ بھرے ہوئے مہاجر کيمپوں کی بندش اور مہاجرين کی حراستی مراکز کے طرز کے نئے کيمپوں ميں منتقلی کا عنديہ ديا ہے۔ مہاجرين کے ليے ’دوزخ‘ سے تعبير کيا جانے والا موريا کيمپ بھی عنقريب بند کر ديا جائے گا۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
جن کا سب کچھ جل کر راکھ ہو گيا
انتيس ستمبر کو موريا کيمپ ميں لگنے والی آگ ميں اس افغان خاندان کا سب کچھ جل کر راکھ ہو گيا۔ چار افراد پر مشتمل يہ خاندان اب موريا کيمپ کے باہر ايک خيمے ميں گزر بسر کر رہا ہے۔ دو چھوٹے بچوں کے ہمراہ ہونے کے باوجود ان کا دعویٰ ہے کہ حکام نے ان کی کوئی مدد نہيں کی اور يہ کيمپ بھی انہيں ايک امدادی ادارے نے ديا ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
مہلک مرض مگر راہ کوئی نہيں
پاکستانی زير انتظام کشمير سے تعلق رکھنے والے نصير احمد ہيپاٹائٹس بی کے مرض ميں مبتلاء ہيں۔ وہ اکتوبر سن 2016ء سے ليسبوس پر پھنسے ہوئے ہيں۔ نصير کی پناہ کی درخواست دو مرتبہ مسترد ہو چکی ہے اور اب انہيں کوئی امداد بھی نہيں ملتی۔ موريا کيمپ کے باہر کھڑی ايک وين ميں چار ديگر افراد کے ساتھ گزر بسر جاری ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
اسمارٹ فون، روز مرہ کی زندگی کا اہم جزو
موريا کيمپ کی زيادہ تر آبادی نوجوان لڑکوں پر مشتمل ہے۔ اسمارٹ فون وہاں روز مرہ کی زندگی کے ليے ايک اہم جزو ہے۔ ديگر يورپی ملکوں يا آبائی ملکوں ميں اہل خانہ کی خيريت جاننی ہو يا معاملہ تفريح کا ہو، ضرورت اسمارٹ فون ہی پوری کرتا ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
بچوں کے ليے سہوليات کا فقدان
موريا اور اس کے آس پاس کی مہاجر بستيوں ميں بچوں کے ليے سہوليات نہ ہونے کے برابر ہيں۔ يہ دو افغان بچياں اِدھر اُدھر گھوم کر اپنا دل بہلا رہی ہيں۔ اس علاقے ميں بچوں کو کيمپوں کے درميان تنگ راستوں اور سڑکوں پر اکثر ديکھا جا سکتا ہے۔ اپنے ارد گرد کی پريشانيوں سے نا آشنا ان بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ، موريا کيمپ کے رہائشيوں کے ليے ٹھنڈی ہوا کے ايک جھونکے کی مانند ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
جگہ کی کمی
موريا کيمپ کے سيکشن بی ميں ڈيڑھ سو بچوں کی گنجائش ہے ليکن وہاں ساڑھے پانچ سو کے لگ بھگ بچے مقيم ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
بالغ مرد الجھن کا شکار
موريا کيمپ کے اکثريتی رہائشيوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس تصوير ميں ايک باپ اور بيٹا کيمپ کے بيرونی ديوار سے ٹيک لگائے بيٹھے ہيں۔ مردوں کے ليے پورا پورا دن بے مقصد پھرنا الجھن کا سبب بنتا ہے۔ ان مہاجرين کو نہ تو ملازمت کی اجازت ہے اور نہ ہی يہ زبان جانتے ہيں۔ اکثر دن اسی طرح بيٹھ کر کٹ جاتے ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
جگہ کا فقدان
اس تصوير ميں دو افغان مہاجر لڑکے موريا کے باہر قائم ايک دکان کے باہر بيٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے ديکھے جا سکتے ہيں۔ موريا کيمپ ميں ساڑھے تين ہزار افراد کی گنجائش ہے مگر وہاں تيرہ ہزار سے زيادہ لوگ رہ رہے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ آس پاس ايسے کئی مناظر ديکھنے کو ملتے ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
’بے ضائقہ کھانوں‘ کا متبادل
يہ موريا کے باہر قائم ايک عارضی دکان ہے۔ پھر سبزياں وغيرہ يہاں سے خريدی جا سکتی ہيں۔ جن لوگوں کو کيمپ ميں فراہم کيا جانے والا کھانا پسند نہيں آتا، وہ يہاں سے سبزياں وغيرہ خريد کر خود پکانے کو ترجيح ديتے ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
موريا کے ارد گرد کی مہاجر بستياں
يہ منظر موريا کيمپ کے باہر واقع مہاجر بستیوں ميں سے ايک کا ہے۔ اس سال سينکڑوں مہاجرين کی آمد کے سبب غير سرکاری بستياں بڑھ رہی ہيں، جہاں صفائی کے انتظامات کافی ناقص ہيں۔