مہاجرين کی واپسی کے ليے دائيں بازو کے جرمن سياستدان شام ميں
8 مارچ 2018
جرمنی ميں پناہ لينے والے شامی مہاجرين کی واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے دمشق کا دورہ کرنے والے دائيں بازو کے جرمن اراکین پارلیمنٹ کے ايک گروپ نے ايک شامی وزير سے گزشتہ روز ملاقات کی۔
اشتہار
جرمنی ميں دائيں بازو کی سياسی جماعت ’آلٹرنيٹو فار ڈوئچ لانڈ‘ AfD کے سياستدانوں نے بدھ سات مارچ کی شام دمشق حکومت کے وزير برائے قومی مفاہمت علی حيدر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی بارے ميں خبر جرمن صوبے نارتھ رائن ويسٹ فيليا کی علاقائی پارليمان ميں پارٹی کے رکن کرسٹيان بليکس کی ايک فيس بک پوسٹ کے ذريعے ملی۔ بليکس نے اپنی تحرير ميں لکھا ہے کہ شامی وزير نے انہيں مطلع کيا کہ اب تک قريب ايک لاکھ سابق باغيوں کو مشاورت فراہم کر کے شہری زندگی ميں ان کے دوبارہ انضمام کو ممکن بنايا جا چکا ہے۔
جرمنی میں دائیں بازو کی عوامیت پسند اور مہاجرین مخالف جماعت اے ایف ڈی کے نظريے ميں شام کے اکثريتی علاقے اتنے محفوظ ہيں کہ جرمنی ميں سياسی پناہ پر موجود شامی تارکين وطن کو ان کے ملک واپس بھيجا جا سکتا ہے۔ ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ یا اے ایف ڈی مہاجرین اور اسلام مخالف عوامیت پسند سیاست کرتے ہوئے اس وقت جرمن پارلیمان میں تیسری بڑی اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے۔
جرمن وزارت خارجہ اب بھی شام کا سفر کرنے کے خلاف تجويز کرتی ہے۔ AfD کے سياستدان کرسٹيان بليکس نے لکھا ہے، ’’نام نہاد شامی پناہ گزين ٹيکس ادا کرنے والے جرمن شہريوں کے اخراجات پر دارالحکومت برلن ميں بيٹھ کر کافی پیتے ہيں جبکہ ہم يہاں حمص ميں اپنے خرچے پر کافی پی رہے ہيں۔ ذرا غلطی پہچانيے؟‘‘
شام کا دورہ کرنے والے وفد میں جرمن پارلیمان کے چار ارکان فرانک پاسیمان، یُورگن پول، اوڈو ہیملگار اور ہارالڈ ویئل کے علاوہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی صوبائی پارلیمان کے تین ارکان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے رواں ہفتے کے آغاز پر شامی مفتی اعظم احمد حاسون سے بھی ملاقات کی، جس ميں حاسون نے بيرون ملک موجود تمام شامی شہريوں کو اپنے ملک واپس جانے کا کہا۔ حکومت کے حامی دمشق کے مفتی اعظم نے سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے وقت دھمکی دی تھی کہ اگر یورپی ممالک نے شام کے معاملات میں مداخلت کی تو وہ سینکڑوں خودکش حملہ آوروں کو یورپ میں حملے کرنے کے لیے بھیج دیں گے۔
واضح رہے کہ AfD کے سياستدانوں کے دورہ شام پر جرمنی ميں داخلی سطح پر تنقيد کی جا رہی ہے۔ برلن حکومت کے ترجمان اسٹيفان زائبرٹ نے کہا، ’’شامی حکومت يوميہ بنيادوں پر يہ ثابت کرتی ہے کہ اسے انسانی جانوں کا کتنا احترام ہے۔ايسی حکومت کا ساتھ دينے والا کوئی بھی خود کو نا قابل اعتبار بنا لیتا ہے۔‘‘
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔