يورپی رياست چيک جمہوريہ نے پناہ گزينوں کی رکن ممالک ميں تقسيم کے حوالے سے يورپی يونين کی اسکيم سے دستبردار ہونے کا اعلان کر ديا ہے۔ پراگ حکومت نے اس اقدام کی وجہ ملکی سلامتی سے متعلق خدشات بتائی ہے۔
اشتہار
چيک جمہوريہ نے يورپی يونين کی اسکيم کے تحت يونان اور اٹلی ميں موجود تارکين وطن کو سکيورٹی خدشات کی بناء پر اپنے ملک ميں پناہ دينے سے انکار کر ديا ہے۔ پراگ حکومت نے یہ فیصلہ پير کے روز کيا۔
يورپ کو درپيش مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں سن 2015 ميں يورپی يونين نے ايک اسکيم کو حتمی شکل دی تھی جس کے تحت 160,000 پناہ گزينوں کو باقاعدہ ايک کوٹے کے تحت رکن ملکوں ميں قانونی انداز سے بسايا جانا تھا۔ اس اسکيم پر ابتداء ہی سے کئی ممالک کو تحفظات تھے جب کہ چند نے تو سرے سے ہی اس پر عمل در آمد سے انکار کر ديا تھا۔ يورپی بلاک کے مقرر کردہ کوٹے کے مطابق چيک ری پبلک کو اپنے ہاں 2,691 مہاجرين کو پناہ دينی تھی۔ تاہم چيک نيوز ايجنسی سی ٹی کے کے مطابق تاحال وہاں صرف ايک درجن تارکين وطن کو ہی پناہ دی گئی ہے۔
رواں سال ستمبر ميں مہاجرين کی تقسيم سے متعلق يورپی اسکيم کی مدت ختم ہو رہی ہے اور چيک وزير داخلہ ميلان خووانيٹس نے اعلان کيا ہے کہ اب ان کا ملک مزيد ايک بھی تارک وطن کو پناہ نہيں دے گا۔ گزشتہ روز پراگ ميں منعقدہ ملکی کابينہ کے ايک اجلاس کے بعد پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خووانيٹس نے کہا، ’’سلامتی کی ابتر صورت حال اور پورے کے پورے نظام کے ناقص انداز ميں چلنے کے سبب حکومت نے اس اسکيم پر عملدرآمد روکنے کی منظوری دے دی ہے۔‘‘ وزير داخلہ کا مزيد کہنا تھا کہ اس فيصلے کے پيش نظر سامنے آنے والے کسی بھی يورپی ردعمل کا متعلقہ وزارت دفاع کرے گی۔
واضح رہے کہ پولينڈ، ہنگری اور سلوواکيہ اس اسکيم کے تحت کسی بھی تارک وطن کو پناہ دينے سے انکار کر چکے ہيں، حتیٰ کہ سلوواکيہ اور ہنگری کی حکومتوں نے اس سلسلے ميں ايک يورپی عدالت ميں کيس بھی دائر کر رکھا ہے۔ يورپی کميشن اسی ماہ يہ فيصلہ کرنے والی ہے کہ جن ممالک نے منظور شدہ يورپی اسکيم کے تحت مہاجرين کو پناہ فراہم نہيں کی، ان کا کيا ہو گا۔
چيک جمہوريہ ميں اسی سال اکتوبر ميں عام انتخابات ہونے والے ہيں اور وہاں بھی ہجرت اور بالخصوص يورپ کو درپيش مہاجرين کا موجودہ بحران ايک اہم موضوع ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق چيک عوام کی اکثريت مسلمان ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکين وطن کو اپنے ہاں پناہ دينے کے خلاف ہے۔
سن 2014 اور 2016ء کے درميان مشرق وسطیٰ، ايشيا اور افريقہ سے تقريباً 1.6 ملين تارکين وطن نے سياسی پناہ کے ليے يورپ کا رخ کيا تھا۔ بعد ازاں برسلز اور ترک حکومت کے مابين ايک ڈيل کے بعد اگرچہ ترکی کے راستے غير قانونی ہجرت تقريباً ختم ہو گئی ہے تاہم ليبيا سے اٹلی کے راستے اب بھی تارکين وطن نے يورپ پہنچنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ يورپی يونين کی دو برس قبل طے شدہ ری لوکيشن اسکيم کے تحت 160,000 پناہ گزينوں کو کوٹے کے تحت رکن ملکوں ميں قانونی انداز سے بسايا جانا تھا تاہم ابھی تک اس اسکيم کے ذريعے صرف ساڑھے اٹھارہ ہزار مہاجرين کو پناہ مل سکی ہے۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔