اٹلی کے شہر میلان کی صفائی کے لیے مقامی بلدیہ کے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی پہلی ٹیم نے کام شروع کر دیا ہے۔ کام کا آغاز شہر کے مرکزی اسٹیشن اور ویا پاڈووا کے علاقے سے کیا گیا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اشتہار
مہاجرین کی خبروں کی یورپی ویب سائٹ انفو مائیگرنٹ کے مطابق بیلا میلانو یا ’خوبصورت میلان‘ نامی یہ پروجیکٹ بے روز گار تارکین وطن اور ایسے افراد کو شہر کی صفائی ستھرائی میں مشغول کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے جنہوں نے اٹلی کی شہریت کی درخواست دے رکھی ہے۔
اس مقصد کے لیے بنائی گئی پہلی چار ٹیموں نے صفائی کے پہلے مرحلے میں شہر کے مرکزی اسٹیشن اور ویا پاڈووا کے علاقے سے کام کا آغاز کر دیا ہے۔
ان چار گروپوں میں دو تارکین ِ وطن، ایک بے روزگار شخص اور ’ویسٹی سولیڈالے‘ نامی کمپنی سے ایک ٹیم لیڈر شامل ہیں۔ یہ افراد ہفتے میں چھ روز میلان شہر کی گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں کی صفائی کے حوالے سے آپس میں رابطے میں رہتے ہیں۔
اس منصوبے کا ہدف صفائی کے لیے ٹیموں کی تعداد بیس تک بڑھا کر شہر بھر کو کوڑے سے پاک کرنا ہے۔ یہ ٹیمیں میلان کی کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے والی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔ یہ ٹیمیں میلان کے پارکوں کی صفائی بھی کریں گی جہاں بے گھر افراد ڈیرہ ڈالے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں گتّا، کاغذ اور ری سائیکل کیا جانے والا دیگر مواد جمع کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل ہو گا۔
اٹلی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی عزت نفس بحال کرنے کے لیے ایسی مختلف سرگرمیاں سن 2016 میں شروع کی گئی تھیں۔ اسی ضمن میں ماحول کے لیے کام کرنے والی اطالوی تنظیم ’لیگ امبیاینٹے‘ کی جانب سے شروع کیے ایک منصوبے ’ لیٹ اَس کلین دی ورلڈ‘ میں پانچ سو مہاجرین نے حصہ لیا تھا۔
تارکین وطن کی جانب سےرضاکارانہ کاموں میں حصہ لینے کا یہ دوسرا سال ہے۔ شہر کی بلدیہ نےان میں سے بعض کو اُن کے اس کام کے لیے سرٹیفیکیٹ بھی دیے ہیں۔ میلان شہر کی بلدیہ کے ایک کونسلر کا کہنا ہے کہ یہ ایک خوبصورت منصوبہ ہے جس میں رضا کار، شہری اور تارکین وطن سب ہی حصہ لے رہے ہیں۔
اطالوی پہاڑوں کی آغوش ميں ايک نئی زندگی کا آغاز
جنوبی اٹلی ميں اسپرومونٹے پہاڑی سلسلے کی آغوش ميں ايک چھوٹا سا گاؤں جو کبھی تاريکی اور خاموشی کا مرکز تھا، آج نوجوانوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ سانت آليسيو ميں اس رونق کا سبب پناہ گزين ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
گمنامی کی طرف بڑھتا ہوا ايک انجان گاؤں
کچھ برس قبل تک سانت آليسيو کی کُل آبادی 330 افراد پر مشتمل تھی۔ ان ميں بھی اکثريت بوڑھے افراد کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بلاکوں کی مدد سے بنی ہوئی تنگ گلياں اکثر وبيشتر خالی دکھائی ديتی تھيں اور مکانات بھی خستہ حال ہوتے جا رہے تھے۔ گاؤں کے زيادہ تر لوگ ملازمت کے بہتر مواقع کی تلاش ميں آس پاس کے بڑے شہر منتقل ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
نئے مہمان، نئی رونقيں
سن 2014 ميں سانت آليسيو کی کونسل نے قومی سطح کے ’پروٹيکشن سسٹم فار ازائلم سيکرز اينڈ ريفيوجيز‘ (SPRAR) نامی نيٹ ورک کے تحت مہاجرين کو خالی مکانات کرائے پر دينا شروع کيے۔ آٹھ مکانات کو قريب پينتيس مہاجرين کو ديا گيا اور صرف يہ ہی نہيں بلکہ ان کے ليے زبان کی تربيت، سماجی انضام کے ليے سرگرميوں، کھانے پکانے اور ڈانس کلاسز کا انتظام بھی کيا گيا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ايک منفرد منصوبہ
يہ ايک خصوصی منصوبہ ہے، جس کے تحت ان افراد کو پناہ دی جا رہی ہے، جو انتہائی نازک حالات سے درچار ہيں۔ ان ميں ماضی میں جسم فروشی کی شکار بننے والی عورتيں، ايچ آئی وی وائرس کے مريض، ذيابيطس کے مرض ميں مبتلا افراد اور چند ايسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے دوران کوئی گہرا صدمہ برداشت کیا ہے یا زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ميئر اسٹيفانو کالابرو بھی خوش، لوگ بھی خوش
سانتا ليسيو کے ميئر اسٹيفانو کالابرو کا کہنا ہے کہ ان کا مشن رحم دلی پر مبنی ہے اور انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی فوائد بھی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
دو طرفہ فوائد
رياست کی طرف سے ہر مہاجر کے ليے يوميہ پينتاليس يورو ديے جاتے ہيں۔ يہ رقم انہیں سہوليات فراہم کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سانت آليسيو ميں سولہ لوگوں کو ملازمت مل گئی ہے، جن ميں سات افراد مقامی ہيں۔ سروسز کی فراہمی کے ليے ملنے والی رقوم کی مدد سے گاؤں کا جم ( ورزش کا کلب) واپس کھول ديا گيا ہے اور اس کے علاوہ ايک چھوٹی سپر مارکيٹ اور ديگر چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی بندش سے بچ گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
سانت آليسيو کے ليے نئی اميد
مقامی افراد اس پيش رفت سے خوش دکھائی ديتے ہيں۔ نواسی سالہ انتوونيو ساکا کہتے ہيں کہ وہ اپنے نئے پڑوسيوں سے مطمئن ہيں۔ ساکا کے بقول وہ اپنی زندگياں خاموشی سے گزارتے ہيں ليکن ديگر افراد کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا ہے اور کام کاج ميں بھی لوگوں کا ہاتھ بٹاتے ہيں۔ سيليسٹينا بوريلو کہتی ہيں کہ گاؤں خالی ہو رہا تھا اور عنقريب مکمل طور پر خالی ہو جاتا، مگر مہاجرين نے اسے دوبارہ آباد کر ديا ہے۔