حکومت سازی کے حوالے سے ہونے والے فیصلہ کن اجلاس میں صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں۔ جرمنی میں موجود مہاجرین اپنے اہلخانہ کو بھی یہاں لا سکیں گے یا نہیں؟ اس حوالے سے ممکنہ اتحادی جماعتوں میں شدید اختلاف ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں حکومت سازی کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں لیکن ایک موضوع کے حوالے سے چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی سیاسی جماعت یونین اور گرین پارٹی میں شدید اختلافات پائے جا رہے ہیں اور وہ موضوع جرمنی میں موجود مہاجرین اور ان کے اہلخانہ کا ہے۔
انگیلا میرکل کے سیاسی اتحاد کے سربراہ فولکر کاؤڈر کا کہنا تھا کہ جن مہاجرین کو دوسرے درجے کی سیاسی پناہ فراہم کی گئی ہے، وہ اپنے اہلخانہ کو جرمنی لانے کے مجاز نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب وفاقی پارلیمان کی نائب صدر کلاؤڈیا روتھ کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہوگا۔
جرمنی میں ایسے مہاجرین کی تعداد انتہائی کم ہے، جنہیں اول درجے میں رکھتے ہوئے سیاسی پناہ فراہم کی جاتی ہے۔ شام کے بھی زیادہ تر زیادہ تر مہاجرین کو دوسرے درجے کی سیاسی پناہ فراہم کی گئی ہے۔
فولکر کاؤڈر کا جرمن ٹیلی وژن اے آر ڈی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’دوسرے درجے کی سیاسی پناہ ملتے ہی لاکھوں شامی مہاجرین کا اپنے اہلخانہ کو جرمنی بلانے کا حق ختم ہو جاتا ہے اور اس قانون کو ایسا ہی رہنا چاہیے۔‘‘ اسی بات پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صرف ان مہاجرین کو ہی اپنے اہلخانہ کو جرمنی بلانے کا حق ہے، جنہیں قانون اس بات کی اجازت فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق دوسرے درجے کے سیاسی مہاجرین کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔
اس کے برعکس گرین پارٹی کی رکن روتھ کا کہنا ہے، ’’اپنی فیملی کے ساتھ رہنا ایک بنیادی حق ہے اور یہ جرمنی کی ہر ایک فیملی کے لیے ایک ہونا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’مہاجرین کا اپنے اہلخانہ کو بلانا گرین پارٹی کا مرکزی موضوع تھا اور ایسا کرنا مہاجرین کے انضمام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔‘‘
حکومت سازی کے لیے جرمن جماعتوں سی ڈی یو، سی ایس یو، ایف ڈی پی اور گرین پارٹی میں مذاکرات جاری ہیں۔ حکومت سازی کے لیے ضروری ہے کہ یہ جماعتیں مختلف موضوعات پر اتفاق کرتے ہوئے تمام معاملات طے کریں۔ فولکر کاؤڈر کا امید ظاہر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکال لیا جائے گا۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔