جرمن حکومت مہاجرین کورضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپسی کے بدلے میں تین ہزار یورو تک کی نقد ادائیگی کرے گی، جرمن وزیرِداخلہ تھوماس ڈے میزیئر
اشتہار
جرمن وزیرِ داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ جن مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہوچکی ہے ان کو رضاکارانہ طور پر وطن واپسی سے قبل نقد رقم دی جائے گی۔ یہ بات تھوماس ڈے میزیئر نے جرمن اخبار ’بلڈ آم زونٹاگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔ ان کا کہنا تھا، ’اگلے تین ماہ میں واپس جانے والے مہاجرین کو انفرادی طور پر ایک ہزار یورو جبکہ ان کے خاندان کے لیے تین ہزار یورو تک امدادی رقم ادا کی جائے گی۔‘
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M. Jawad
6 تصاویر1 | 6
گزشتہ چند سالوں سے جرمن حکومت اپنی مرضی کے تحت واپس جانے والے تارکین وطن کو مخصوص رقم ادا کرتی رہی ہے۔ اس ادائیگی سے پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس جانے کا حوصلہ ملنے کے علاوہ وہاں ابتدائی ایام میں گزارہ کرسکتے ہیں۔
جرمن وزیرِ داخلہ نے مہاجرین سے براہ راست اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر آپ اگلے سال فروری تک رضاکارانہ طور پروطن واپس جائیں گے تو ایک سال تک گھر کے اخراجات کے لیے مالی امداد بھی دی جائے گا۔‘
’اب، اپنا وطن، اپنا مستقبل‘
جرمن ذرائع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق مسترد شدہ پناہ گزین کو ابتدائی رقم کے ساتھ اپنے وطن میں گھر کا کرایہ، گھرکی تعمیر نو اور بنیادی اخراجات کے ساتھ باورچی خانے یا غسل خانے کا سامان خریدنے کے لیے بھی معالی مدد دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جرمن حکومت کی جانب سے متعارف کردہ اس نئی سکیم کا نام ’’ اب، اپنا وطن، اپنا مستقبل‘‘ یا انگریزی میں !Your Country. Your Future. Now تجویز کیا گیا ہے۔
بعد ازاں تھوماس ڈی مزائر کا پناہ گزین سے مخاطب ہوکر کہنا تھا کہ، ’’آپ کے ملک میں مواقع موجود ہیں۔ ہم آپ کو اپنے ملک میں دوبارہ ضم ہونے کے لیے تعاون فراہم کریں گے۔‘‘
وزیر داخلہ کی طرف سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب جرمن ریاست باویریا کو افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ واضح رہے دیگر جرمن ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ تر افغان مہاجرین کو باویریا سے واپس بھیجا گیا ہے۔ قبل ازاں باویریا کی وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ، ’’افغان مہاجرین ملک بدری کی اطلاع ملتے ہی لاپتہ ہوجاتے ہیں۔‘‘ اس وزارت کے مطابق ملک بدر کیے جانے والے زیادہ تر مہاجرین کی فہرست میں مبینہ جرائم پیشہ افراد بھی شامل ہیں۔
جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع
01:33
جرمنی میں باويريا اور سیکسنی کی ریاستیں افغان مہاجرين کی طرز پر جرائم پیشہ شامی مہاجرین کو بھی جرمنی سے ملک بدری چاہتے ہیں۔ اسی حوالے سے آئندہ ہفتے لائپزگ میں شروع ہونے والی صوبائی وزرائے داخلہ کی ایک کانفرنس میں اس تجويز پر فوکس کیا جا رہا ہے۔