مہاجرین بحران: یورپی یونین کی بقا خطرے میں ہے، آسٹریا
25 فروری 2016آسٹریا کی وزیرداخلہ ژوہانا مِکل لائٹنر نے کہا ہے کہ مہاجرین کے بہاؤ کو ہر حال میں روکا جائے کیوں کہ اس سے یورپی یونین کی سلامتی پر سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بات ویانا میں مغربی بلقان خطے کی ریاستوں کے رہنماؤں کے ایک اجلاس میں کہی۔ یونان پہنچنے والے مہاجرین ان ریاستوں سے گزر کر مغربی اور شمالی یورپ پہنچتے ہیں۔
دریں اثناء ہنگری نے مہاجرین کی یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں تقسیم کے منصوبے پر ایک عوامی ریفرنڈم کا اعلان کر دیا ہے۔ برسلز کی اس اسکیم کے تحت ایک مخصوص لازمی کوٹے کے تحت مہاجرین کو 28 رکنی بلاک کی شامل ریاستوں میں تقسیم کیا جانا ہے۔
مہاجرین کے یورپ میں داخلے کے حوالے سے اہم ترین ملک یونان ہے۔ ترکی سے بڑی تعداد میں مہاجرین خستہ حال کشتیوں کے ذریعے یونان پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے زمینی راستہ استعمال کرتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپ کی راہ لیتے ہیں۔ ایتھنز حکومت نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اس سلسلے میں اس کا بوجھ نہ بانٹا گیا، تو وہ مستقبل میں کسی یورپی معاہدے میں شامل نہیں ہو گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اجلاس میں یورپی یونین کے رکن ممالک میں مہاجرین کے موضوع پر پائے جانے والے سنگین اختلافات واضح دکھائی دیے۔
یونانی وزیراعظم الیکسس سپراس نے بدھ کے روز ملکی پارلیمان سے اپنے خطاب میں کہا، ’’مہاجرین کی ذمہ داری اور بوجھ اگر بانٹا نہ گیا، تو یونان آئندہ کسی یورپی معاہدے سے متفق نہیں ہو گا۔‘‘
ویانا میں ہونے والے اجلاس کے بعد بھی جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں بھی زور دیا گیا ہے کہ بلقان ریاستوں کے ذریعے گزشتہ برس ہزاروں افراد جرمنی، سویڈن اور آسٹریا پہنچے ہیں اور اب یہ بہاؤ ہر صورت میں روکا جانا ضروری ہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے موقع پر منعقد ہوا ہے، جب تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک قریب ایک لاکھ دس ہزار مہاجرین یونان اور اٹلی پہنچ ہیں۔ اس دوران 413 افراد یورپ پہنچنے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ گزشتہ برس یورپ پہنچنے والے ان مہاجرین کی تعداد ایک ملین سے زائد رہی تھی۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مہاجرین کے حوالے سے یورپی ردعمل کو ’شرم ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی ممالک اپنے سرحدوں کے تحفظ کو مہاجرین کے حقوق کے تحفظ پر فوقیت دے رہے ہیں۔