ایک تازہ مطالعاتی جائزے میں کہا گیا ہے کہ جرمن بچوں میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق برداشت میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اشتہار
اس سروے کے لیے مختلف جرمن اسکولوں کے دس ہزار بچوں کی رائے لی گئی، جن کی عمریں نو تا 14 برسوں کے درمیان تھیں۔ جرمن ادارے ایل بی ایس کی جانب سےکِنڈر بیرومیٹر کے نام سے یہ سروے پروکنڈر نامی تنظیم نے کیا ہے۔ اس سروے کے دوران ان بچوں سے پوچھا گیا کہ کیا غربت اور تشدد کے شکار ممالک سے مہاجرین اور تارکین وطن کو جرمنی لایا جانا چاہیے؟
مہاجرین اور مہاجرت سے متعلق اطلاعات فراہم کرنے والی ویب سائٹ انفومائیگرنٹس کے مطابق گو کہ بچوں کی اکثریت مہاجرین اور تارکین وطن کو جرمنی میں لانے اور بسانے کے حق میں تھی، تاہم دس فیصد بچوں نے اس سے شدید اختلاف کیا۔
عمر اور رہائش کا علاقہ، برداشت پر اثرانداز
اس مطالعاتی جائزے میں کہا گیا ہے کہ زیادہ عمر کے بچوں میں تارکین وطن کے حوالے سے برداشت کم دیکھی گئی ہے، تاہم ان کی رہائش کی جگہ کا ان کے رویے پر اثرانداز ہونا بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور بریمن، ہیمبرگ اور برلن میں بچے مہاجرین کے سب سے زیادہ حامی دیکھے گئے، جب کہ مشرقی جرمن ریاستوں برانڈنبرگ، سیکسنی انہالٹ اور تھیورنگیا میں یہ برداشت کم دیکھی گئی۔
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
7 تصاویر1 | 7
رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل قریب دوتہائی (61%) بچوں نے دوسرے ممالک سے جرمنی پہنچنے والے بچوں کو اپنا دوست بتایا۔
اس جائزے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والے مالیاتی ادارے ایل بی ایس کے ترجمان کرسٹیان شرؤڈر کے مطابق، ’’دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے بچوں کے ساتھ گھلنا ملنا، اب اسکول کے بچوں کی زندگی کا ایک عمومی حصہ بن چکا ہے۔‘‘
اس مطالعاتی جائزے میں شامل بچوں میں سے ایک تہائی ایسے بھی تھے، جن کے دوست ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار تھے۔