درجنوں مہاجرین جزیرہ مانوس کے حراستی مرکز سے دیگر کیمپوں میں منتقل ہو گئے ہیں لیکن سینکڑوں نے اس مرکز کو خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ادھر نیوزی لینڈ نے ان میں سے کچھ مہاجرین کو پناہ دینے کی دعوت دہرائی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاپوا نیو گنی کی حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ مانوس جزیرے پر قائم مہاجرین کے شیلٹر ہاؤس سے درجنوں مہاجرین کو دیگر کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے لیکن سینکڑوں دیگر اس مرکز کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔
پاپوا نیو گنی کی سپریم کورٹ کی طرف سے اس حراستی مرکز کے غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد اکتیس اکتوبر کو اسے بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس مرکز میں مقیم مہاجرین کو خوف ہے کہ اگر وہ وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوئے تو انہیں مقامی آبادی انہیں تشدد کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہیں آسٹریلیا جانے کی اجازت دی جائے۔ ان مہاجرین میں پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ آسٹریلیا میں امیگریشن پالیسی انتہائی سخت ہے اور وہاں پناہ حاصل کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ ماضی میں کینبرا حکومت سمندری راستوں سے آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو پکڑ کر پاپوا نیو گنی میں قائم دو حراستی مراکز میں پہنچا دیتی تھی۔ مانوس اور ناؤرو جزائر پر واقع مہاجرین کے ان حراستی مرکز کا انتظام بھی آسٹریلوی حکومت چلاتی رہی ہے۔ اس وقت مانوس جزیرے پر قائم اس ایک حراستی مرکز میں چھ سو مہاجرین موجود ہیں۔
پاپوا نیو گنی کی حکومت نے اس کیمپ کو پانی، بجلی اور دیگر سہولیات اور امدادی سامان کی ترسیل بند کر دی ہے لیکن پھر بھی 423 مہاجرین اس کیمپ کو خیرباد کہنے سے انکاری ہیں۔ اس کیمپ میں موجود ایک عراقی صحافی بہروز بوچانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ خوراک اور پانی کی عدم دستیابی کے باعث وہاں موجود مہاجرین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
ان مہاجرین کے مطابق وہ ایک طویل عرصے سے بے یقینی کی صورتحال کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں اور اگر اب بھی انہیں آبادکاری کی اجازت نہ دی گئی تو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ انہیں واپس ان کے آبائی ممالک بھی بھیجا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا اور پاپوا نیو گنی کی حکومتوں نے اس کیمپ میں موجود مہاجرین کے لیے تین مختلف شیلٹر ہاؤسز بنائے ہیں، جہاں تمام بنیادی ضروریات کی اشیاء فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پاپوا نیو گنی کے حکام نے دہرایا ہے کہ اگر اس کیمپ میں موجود مہاجرین اپنی رضا مندی سے نئے مہاجر مراکز نہ گئے تو انہیں زبردستی وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔ کچھ مہاجرین نے پاپوا نیو گنی کی سپریم کورٹ میں اپیل بھی کر دی ہے کہ انہیں اس کیمپ سے نہ نکالا جائے۔ ممکنہ طور پر اس اپیل پر سماعت کل پیر تیرہ نومبر کو ہو گی۔
ادھر اس ابتر صورتحال میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسِنڈا آرڈرن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ویلنگٹن حکومت پاپوا نیو گنی میں موجود ڈیڑھ سو مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے پر تیار ہے۔ ہفتے کے دن ویت نام میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاپوا نیو گنی میں مہاجرین کی صورتحال اچھی نہیں ہے اور اس لیے نیوزی لینڈ کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اپوزیشن رہنما میلکم ٹرن بل نے وزیر اعظم آرڈرن کی اس پیشکش کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بلغراد میں پرانی بیرکیں، جو پاکستانی مہاجرین کا گھر بنیں
برطانوی فوٹو گرافر ایڈورڈ کرا فورڈ نے کئی ماہ تک سربیا کے کیمپوں میں وہاں قیام پذیر تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کو عکس بند کیا۔ آئیے ڈالتے ہیں سربیا میں مہاجرین کی حالت زار پر ایک نظر کرا فورڈ کی ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: Edward Crawford
امید کی کرن
بلغراد میں ان بیرکوں نے گزشتہ ماہ خالی کیے جانے سے قبل قریب بارہ سو مہاجرین کو پناہ دے رکھی تھی۔ کرا فورڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں وہاں اس بحران کی تصویری کَور یج کر رہا تھا، میں نے سینکڑوں پناہ گزینوں سے بات کی۔ تمام پناہ گزینوں کا ایک ہی مقصد تھا یورپ میں ایک بہتر زندگی کی تلاش۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر
یہ بیرکیں ایسے افغان اور پاکستانی مہاجرین کا گھر رہی ہیں جنہوں نے اپنے ممالک میں غربت اور دہشت گردی سے فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرافورڈ نے واضح کیا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال اُس وقت زیادہ خراب ہوئی جب مغربی افواج واپس چلی گئیں اور طالبان نے ملک میں اُن کے حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
تصویر: Edward Crawford
ہمدردی کی تلاش
رواں برس کے آغاز میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کو جس مشکل کا سب سے پہلے سامنا کرنا پڑا وہ شدید سردیاں اور پھر موسم بہار کی سرد ہوائیں تھیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جانب سے ملے ان سرمئی کمبلوں نے سردی سے بچاؤ میں ان پناہ گزینوں کی مدد کی۔
تصویر: Edward Crawford
سرمئی کمبل
کرافورڈ نے کہا، ’’بیرکوں میں ہر طرف بے شمار کمبل دکھائی دیتے تھے۔ مہاجرین ان کے ڈھیر پر سوتے اور انہی کو گرم کوٹ کی طرح بھی استعمال کرتے تھے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے شخص کے لیے کمبل کا استعمال ناگزیر تھا۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
مہاجرت کے بحران کی علامت
یہ سرمئی کمبل جن کے بغیر مہاجرین کے لیے یورپ کی شدید کو برداشت کرنا شاید ممکن نہ ہو تا، نہ صرف مہاجرین کے بحران کی علامت بنے بلکہ ان تارکین وطن کی روز مرہ زندگی کا اہم جزو بھی بن گئے۔ اس تصویر میں ایک شخص پانی گرم کرتا اور ایک دوسرے مہاجر کے سر پر ڈالتا دکھائی دے رہا ہے۔ دوسرا ہاتھ میں صابن جبکہ تیسرا بال خشک کرنے کی غرض سے کمبل ہاتھ میں لیے تیار کھڑا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
چھوڑا ہوا کمبل
یوں تو مہاجرین سربیا میں جہاں کہیں جائیں، سرمئی کمبل اِن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاہم بعض اوقات یہ تارکین وطن اس لیے انہیں کسی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اُن کی چلنے کی رفتار متاثر نہ ہو۔ کرافورڈ نے بتایا کہ اس کمبل کا مالک اسے ٹرین میں چھلانگ لگاتے وقت ریلوے ٹریک پر چھوڑ گیا تھا۔
تصویر: Edward Crawford
ہیلو امی، میں خیریت سے ہوں
سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ یورپ آنے والے چالیس فیصد مہاجرین بچے اور نو عمر افراد ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک نوجوان مہاجر ہے جو اپنی ماں کو فون پر اپنی خیریت کی اطلاع دے رہا ہے۔
تصویر: Edward Crawford
بہتر صورت حال
کرافورڈ کے بقول اگرچہ بیرکوں میں گنجائش سے زیادہ افراد تھے اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی اچھی نہیں تھی، اس کے باوجود یہ سربیا کے دوسرے مہاجر کیمپوں کے مقابلے میں بہتر تھا۔
تصویر: Edward Crawford
یورپی یونین پر تنقید
کرافورڈ کے نزدیک اگرچہ صورت حال قدرے مستحکم ہے تاہم وہ بحران کے حوالے سے یورپی یونین کے رویے کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے،’’ سربیا کو کہیں زیادہ فنڈز ملنے چاہئیں تاکہ یہاں مہاجرین کے لیے بہتر ماحول میں کیمپ بنائے جا سکیں۔‘‘
تصویر: Edward Crawford
رویے کی شکایت کے بجائے تعلیم
کرافورڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں قانونی طور پر مہاجرین کے داخلے کے لیے پناہ کی درخواستوں پر عمل درآمد کی رفتار کو تیز کیا جانا چاہیے۔ لیکن خود مہاجرین صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کریں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ اُن کے رویے کی شکایت کرنے کے بجائے اُنہیں تعلیم دی جائے اور یہ بتایا جائے کہ یہاں کیا قابلِ قبول ہے اور کیا نہیں۔