'مہاجرین سمجھ لیں، جرمنی جنسی جرائم برداشت نہیں کرے گا‘
2 نومبر 2018
جرمن وزیر مملکت برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ حکومت جنسی نوعیت کے جرائم کو کسی قیمت پر برداشت نہیں کرے گی۔ یہ بیان جرمن شہر فرائی برگ میں جنسی زیادتی کے ایک واقعے کے تناظر میں دیا گیا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں ترک وطن، مہاجرین اور انضمام کے اُمور کی نگران وزیر مملکت اناٹے وِڈ مَن ماؤس نے آر این ڈی نیوز آرگنائزیشن سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ ان مجرموں کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور سخت سزا دی جانی چاہیے۔‘‘
جرمن پولیس نے ملک کے جنوب مغربی شہر فرائی برگ میں گزشتہ ماہ انیس سے انتیس سال تک کی عمروں کے سات شامی پناہ گزینوں اور ایک پچیس سالہ جرمن شخص کو ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
شبہ تھا کہ ان میں سے ایک شخص نے جنسی زیادتی سے قبل ایک نائٹ کلب میں اس کے مشروب میں نشہ آور مواد ملایا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے فرائی برگ کے شہریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور خدشہ ہے کہ ملک بھر میں مہاجرین مخالف جذبات کو مزید پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔ اسلام اور مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی پہلے ہی سے اس نکتے پر ملک میں اپنی بنیاد اور مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
وِڈ مَن ماؤس نے مزید کہا، ’’ تمام پناہ گزینوں کو جرمنی پہنچتے ہی ایسے بنیادی کورسز کرنے چاہییں جو جرمنی میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں اور ان میں سے ایک تربیتی کورس جنسی زیادتی اور تشدد کی دیگر صورتوں سے متعلق جرائم پر جرمنی کی صفر برداشت کی پالیسی سے متعارف کرانا بھی شامل ہونا چاہیے۔‘‘
مہاجرت کی وزیر کی حیثیت سے وِڈ مَن ماؤس براہ راست جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ماتحت کام کرتی ہیں۔ اس سے قبل اے ایف ڈی نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ طالبہ سے زیادتی کے واقعے کے خلاف فرائی برگ کی گلیوں اور سڑکوں پر اپنے غم و غصے کا اظہار کریں تاہم فرائی برگ کے میئر مارٹن ہورن نے لوگوں سے پر سکون رہنے کی اپیل کی تھی۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے ہورن کا کہنا تھا، ’’مجھے امید ہے کہ مظاہرے پر امن رہیں گے اور شہر میں مزید تشدد اور نفرت کا باعث نہیں بنیں گے۔ فرائی برگ میں مجرموں اور اس طرح کے جرائم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘ مارٹن ہورن کا مزید کہنا تھا کہ یہاں اس جرمن شہر میں ایسے لوگوں کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں جو اس طرح کے جرائم کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ص ح / ع ب / نیوز اجنسی
جرمنی کےعادی قاتل
دنیا میں بھیانک اور سلسلہ وار جرائم کی وارداتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ایسے مجرم بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں اور بعض انسانی گوشت کھاتے ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران جرمنی کے عادی قاتلوں پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Jaspersen
میونسٹر برگ کا آدم خور
کارلے ڈینکے نے کم از کم بیالیس افراد کا قتل کیا اور پھر اُن میں سے کئی کا گوشت بھی کھاتا رہا۔ زیادہ تر مقتولین کا تعلق دیہات سے تھا۔ یہ سن 1903 سے 1924 کے دوران سرگرم تھا۔ ایسا بھی خیال کیا گیا کہ اُس نے بعض مقتولین کا گوشت موجودہ پولینڈ کے شہر وراٹس وہاف میں سور کا گوشت قرار دے کر فروخت بھی کیا۔ ڈینکے نے جیل میں خود کو پھندا دے کر خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: 171413picture-alliance/arkivi
ہینوور کا خوف
جرمن شہر ہینوور میں فرٹز ہارمان نے کم از کم چوبیس لڑکوں اور لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ یہ سن 1918 سے 1924 تک فعال رہا۔ اس کی وارداتوں سے ہینوور میں خوف و ہراس پیدا رہا۔ اس کا سر سن 1925 میں قلم کر دیا گیا تھا۔
کارل گراس مان نے جن افراد کو قتل کیا، اُن کے گوشت بھی وہ بلیک مارکیٹ میں اپنے ہاٹ ڈاگ اسٹینڈ پر فروخت کرتا رہا۔ اُس نے کتنے قتل کیے اُن کی تعداد کا علم نہیں لیکن اُس پر ایک سو سے زائد لاپتہ ہونے والے افراد کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی۔ اُس کے مکان کے قریب سے تیئیس خواتین کی ٹکڑوں میں تقسیم نعشیں ملی تھیں۔ اس نے سن 1922 میں موت کی سزا سے قبل خود کو پھندا لگا لیا تھا۔
تصویر: Gemeinfrei
جھیل فالکن ہاگن میں پھیلی دہشت
جرمن علاقے براڈن برگ کی جھیل فالکن بیرگ کے قرب جوار میں سن 1918 سے 1920 تک ایک تالے بنانے والے شخص، فریڈرش شُومان کی لرزہ خیز وارداتوں سے شدید خوف پیدا ہوا۔ اس شخص کی گرفتاری ایک جنگل کے گارڈ کے ساتھ لڑائی اور پھر اُس کے قتل کے بعد ہوئی۔ شومان نے کُل پچیس افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اُسے اٹھائیس برس کی عمر میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
برلن ٹرام کا قاتل
پال اوگورٹسو پر جنسی زیادتی کے اکتیس واقعات کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی گئی۔ یہ نازی دور میں برلن میں چلنے والی ٹرام سروس میں ملازمت کرتا تھا۔ اُس نے آٹھ خواتین اور چھ دوسرے افراد کو سن 1940 اور 1941 میں قتل کیا۔ وہ چلتی ٹرام میں یہ وارداتیں کرتا تھا اور بعض اوقات وہ اپنے شکار کو چلتی ٹرین سے باہر پھینک دیتا تھا۔ اُس کو گرفتاری کے بعد موت کی سزا دی گئی۔
تصویر: Gemeinfrei
موت کا ہر کارہ
روڈولف پلائل سرحدی محافظ تھا۔ مشرقی جرمنی کے پہاڑی علاقے ہارٹس میں سن 1946 ہونے والی دو سالہ تعیناتی کے دوران سابقہ مشرقی حصے سے مغربی جرمنی کی جانب خواتین روانہ کرنے کے ناجائز کاروبار میں ملوث رہا۔ اس سرحدی محافظ نے پچیس افراد کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا۔ عدالت نے سن 1950 میں اُسے عمر قید کی سزا سنائی۔ پلائل نے آٹھ برس بعد جیل میں خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈوئیس بُرگ کا انسانی گوشت کھانے والا
ژوآخم گیرو کرول ایک عادی قاتل، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے علاوہ انسانی گوشت کا بھی رسیا تھا۔ سن 1955 سے لے کر سن 1976 کے دوران 14 افراد کو قتل کیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین تھیں۔ جب وہ سن 1976 میں گرفتار ہوا تو اُس کا ریفریجریٹر انسانی گوشت سے بھرا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ ایک چار سالہ بچی کے ہاتھ اور پاؤں پکا رہا تھا۔ کرول کو عمر قید کی سزا ہوئی لیکن سن 1991 میں ہارٹ اٹیک سے مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Sieländer
دُھوئیں نے قاتل بے نقاب کر دیا
فرٹز ہونکا نے سن 1970 سے 1975 کے درمیان چار خواتین طوائفوں کو گلہ گھونٹ کر پہلے ہلاک کیا اور پھر اُن کی نعشوں کے ٹکڑے کر کے اپارٹمنٹ میں رکھ دیے۔ ایک دن اپارٹمنٹ والی بلڈنگ میں آگ لگ گئی اور پھر فائر فائٹرز کو وہ انسانی ٹکڑے دستیاب ہوئے۔ ہونکا اُس وقت کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ عدالت نے اُسے نفسیاتی مریض قرار دے کر پندرہ برس کی سزائے قید سنائی۔ وہ 1993 میں رہا ہوا اور پانچ برس بعد مرا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سینٹ پاؤلی کا قاتل
ہیمبرگ کے بازار حسن والے علاقے سینٹ پاؤلی میں ویرنر پِنسر ایک کرائے کے قاتل کے طور پر مشہور تھا۔ اُس نے سات سے دس ایسے افراد کا قتل کیا جو جسم فروش خواتین کی دلالی کرتے تھے۔ اُس نے تفتیش کے دوران اچانک پستول نکال کر پہلے تفتیش کار کو ہلاک کیا پھر اپنی بیوی کے بعد خود کو بھی گولی مار لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
زہر سے موت دینے والی
جرمن شہر کولون کی نرس ماریانے نؤل اپنے مریضوں کو زہر کا ٹیکا لگا کر موت دیتی تھی۔ اُس نے سن 1984 سے لے کر سن 1992 کے دوران سترہ افراد کو زہر دے کر ہلاک کیا اور دیگر اٹھارہ کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ گئے۔ اُس نے کبھی اعتراف جرم نہیں کیا۔ وہ اس وقت عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/DB
شاہراؤں کا قاتل
فولکر ایکرٹ ٹرک چلایا کرتا تھا۔ اُس نے سن 2001 کے بعد پانچ برسوں میں نو خواتین کو قتل کیا۔ اُس نے پہلا قتل پندرہ برس کی عمر میں اپنی کلاس فیلو کا گلا گھونٹ کر کیا۔ ایکرٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والی زیادہ تر خواتین طوائفیں تھیں۔ اُس نے دورانِ مقدمہ سن 2007 میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: Imago
موت کا فرشتہ
اسٹیفان لیٹر مرد نرسنگ اسٹاف سے منسلک تھا۔ اُس نے ہسپتال میں نوکری کرتے ہوئے باویریا میں انتیس افراد کو زہریلے انجکشن لگائے۔ یہ وارداتیں اُس نے سن 2003-04 میں کی تھیں۔ دوا کی چوری پر گرفتار ہوا اور پھر اُس نے اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے لاعلاج مریضوں کو موت کے ٹیکے لگا کر راحت پہنچائی ہے۔ وہ اس وقت عمر قید بھگت رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/U. Lein
قاتل مرد نرس
نیلز ہؤگل کا مقدمہ اس وقت جرمن عدالت میں زیرسماعت ہے۔ اُس نے ایک سو مریضوں کو خطرناک ٹیکے لگانے کا اعتراف کیا ہے۔ اس کو سن 2015 میں دو افراد کی ہلاکت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ وسیع تر تفتیش کے دوران اُس کو ایک سو سے زائد مریضوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اُس کا مقدمہ اولڈن بیرگ کی عدالت میں سنا گیا اور ابھی سزا کا تعین ہونا باقی ہے۔ امکاناً اُسے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔