مہاجرین سے بھرا بحری جہاز ایکوارئیس اسپین لنگر انداز ہو گیا ہے۔ اٹلی نے اس امدادی بحری جہاز کو ملکی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، جس کی وجہ سے یورپی یونین میں مہاجرت کے حوالے سے اختلافات واضح ہو گئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اتوار کے دن بتایا ہے کہ 629 مہاجرین کو لیے امدادی بحری جہاز ایکوارئیس ہسپانوی بندرگاہی شہر ویلنیسا لنگر انداز ہو گیا ہے۔ اس اطالوی کوسٹ گارڈز بحری جہاز میں وہ مہاجرین سوار تھے، جنہیں بحیرہ روم میں امدادی کارروائیوں کے دوران ریسکیو کیا گیا تھا۔ گزشتہ سات دنوں سے یہ جہاز سمندر میں ہی موجود تھا کیونکہ اطالوی حکومت نے اسے اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
روم حکومت کی طرف سے اس امدادی جہاز کو ملک میں لنگرانداز ہونے سے روکنے کے نتیجے میں یورپی یونین کی سطح پر اختلافات زیادہ واضح ہو گئے ہیں کہ مہاجرین کا بحران کس طرح حل کیا جانا چاہیے اور یہ کہ پناہ دیے جانے کی مشترکہ یورپی پالیسی کیا ہونا چاہیے۔
شورش زدہ اور تنازعات کے شکار ممالک سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یورپ کا رخ کر رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے شمالی افریقہ سے لوگ پرخطر سمندری راستوں کا استعمال کرتے ہوئے اٹلی یا اسپین جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
تصویر: Privat
11 تصاویر1 | 11
ہسپانوی حکام نے بتایا ہے کہ ایکوارئیس کے لنگر انداز ہونے کے بعد اتوار کے دن ہی دو مزید امدادی بحری جہاز ملکی ساحلی علاقوں میں لنگر انداز ہوں گے، جن میں موجود مہاجرین کو ملکی اور یورپی قوانین کے تحت امداد پہنچائی جائے گی۔ تاہم کہا گیا ہے کہ ایسے مہاجرین کو واپس ان کے ممالک روانہ کیا جا سکتا ہے، جن کے پاس پناہ حاصل کرنے کا قانونی حق نہیں ہے۔
ہسپانوی حکومت کے مطابق ان امدادای جہازوں کے ذریعے ملک میں داخل ہونے والے تمام مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں پر فردا فردا کارروائی کی جائے گی اور پرکھا جائے گا کہ ان میں سے کتنے افراد اقتصادی مقاصد کی خاطر مہاجرت اختیار کرنے کی کوشش میں ہیں اور کن مہاجرین کے دعوے سچے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مکمل چھان بین کے بعد ہی ان مہاجرین کو اسپین میں پناہ کی اجازت دی جائے گی۔
ہسپانوی حکام کے مطابق ایکوارئیس کے ذریعے اسپین پہنچنے والے ان مہاجرین میں سات حاملہ خواتین اور 123 بچے بھی شامل ہیں، جنہیں فوری طبی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ امدادی جہاز ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز اور ایس او ایس میڈیٹیرئین نامی غیر سرکاری اداروں کی مشترکہ معاونت سے کام کر رہا تھا۔
گزشتہ ہفتے مالٹائی اور اطالوی حکام نے اس جہاز کو اپنے اپنے ممالک میں لنگر انداز ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس جہاز میں مجموعی طور پر چھبیس ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن افراد سوار تھے، جن میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور افغان بھی شامل ہیں۔
فرانسیسی امدادی بحری جہاز ایکوارئیس نے لیبیا کی ساحلی حدود سے ان مہاجرین کو ریسکیو کیا تھا، جس کے بعد انہیں یورپ منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اطالوی حکومت کا الزام ہے کہ یہ امدادی مشن ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، جو غیرقانونی طور پر یورپ آنے کی کوشش میں ہیں۔
اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی کے بقول ایک طرح سے یہ امدادی مشن انسانوں کے اسمگلروں کی مدد ہی کر رہا ہے کیونکہ افریقی ساحلی حدود میں مختلف کشتیوں پر سوار افراد کو بچا کر یورپ لانے سے ان کے حوصلے مزید بلند ہو جائیں گے۔
ع ب/ ع ت / خبر رساں ادارے
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔