مہاجرین سے متعلق ترک یورپی معاہدے کی ناکامی کا خطرہ، یُنکر
شمشیر حیدر30 جولائی 2016
یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کے مطابق تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے ترکی اور یونین کے مابین طے پانے والا معاہدہ ناکام ہو جانے کے خطرات کافی زیادہ ہیں۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
اشتہار
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپی کمیشن کے سربراہ نے اس اندیشے کا اظہار آج تیس جولائی بروز ہفتہ آسٹریا کے ایک روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔
آسٹرین روزنامے ’کوریئر‘ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں ژاں کلود یُنکر کا کہنا تھا، ’’معاہدہ ناکام ہو جانے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ کئی طرح کے خطرات کا شکار یہ معاہدہ اب تک توقعات سے بہت کم کامیاب رہا ہے۔ ترک صدر ایردوآن بارہا اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو منسوخ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو بڑی تعداد میں تارکین وطن دوبارہ یورپ کا رخ کر سکتے ہیں۔‘‘
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین کی آمد سے متعلق یہ معاہدہ رواں برس مارچ میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے مطابق ترکی سے غیر قانونی طور پر یونانی جزیروں پر پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جاتا ہے۔
تارکین وطن کو اس غیر قانونی اور خطرناک سمندری سفر سے روکنے یا واپس ترکی بھیج دینے کے عوض یونین ترکی میں مقیم شامی مہاجرین کی آباد کاری میں مدد کے لیے مالی معاونت بھی فراہم کر رہی ہے۔
اس معاہدے پر عمل درآمد کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے راستوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ تاہم ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد یونین اور ترکی کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث اس معاہدے کی ناکامی کے خدشات بھی کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔
’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘
02:29
This browser does not support the video element.
ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش پندرہ جولائی کو کی گئی تھی جس کے تین روز بعد ہی یونان میں موجود وہ ترک اہلکار، جو اس معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے وہاں موجود تھے، واپس ترکی چلے گئے تھے۔ ترکی نے اب تک اپنے ان اہلکاروں کو واپس یونان نہیں بھیجا۔
یورپی کمیشن کے صدر یُنکر نے اٹھائیس رکنی یورپی یونین میں خاص طور پر ہنگری اور پولینڈ میں مہاجرین کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یُنکر نے اس انٹرویو میں کہا، ’’پولینڈ کی حکومت کا لائحہ عمل قانون کی بالادستی کے خلاف ہے۔ ہم ہنگری میں بھی مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم کرائے جانے کی تیاریوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے گزشتہ ہفتے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو یورپ کے لیے ’زہر‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک میں کسی ایک بھی تارک وطن کو پناہ نہیں دینا چاہتے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔