اقوام متحدہ کے مندوب برائے انسانی حقوق فرانسوا کریپو نے یورپی یونین کے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں یونین نے سیاسی ’بصیرت کی کمی‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی کی یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے مندوب فرانسوا کریپو نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کے اب تک اختیار کردہ طریقہ کار پر شدید تنقید کی ہے۔ کریپو کا کہنا تھا کہ یونین نے نہ صرف اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’بصیرت کی کمی‘ کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اس کا عمل قانونی طور پر بھی مبہم ہے۔
عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے لیے مندوب کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی یونین ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی گرفتاریوں کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے۔
یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے بارے میں کریپو کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی یونان سے ترکی واپسی کے لیے ’واضح قوانین اور احتسابی نظام کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے‘۔
فرانسوا کریپو سے پہلے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی دیگر عالمی تنظیمیں بھی ترکی اور یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ یہ معاہدہ رواں برس بیس مارچ کو طے پایا تھا اور اپریل کے آغاز سے اس معاہدے پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا تھا۔ اب تک جن تارکین وطن کو یونان سے ترکی واپس بھیجا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے ہے۔
ایتھنز حکام اس متنازعہ معاہدے کے بعد سے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو حراست میں رکھ رہے ہیں۔ یونان میں پچاس ہزار سے زائد مہاجرین پھنسے ہوئے ہیں اور دوسری جانب آسٹریا سمیت بلقان کی متعدد ریاستوں نے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے عالمی ادارے کے نمائندے فرانسوا کریپو نے یونانی دارالحکومت ایتھنز میں متعدد حراستی مراکز اور مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ جن پناہ گزینوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے، ان میں مہاجر بچوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔
کریپو نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر مہاجرین کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے تبدیل کرے۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔