سماجی رابطوں کی ویب سائٹس جہاں دنیا بھر کے لوگوں کے مابین فوری رابطے کا سبب ہیں، وہیں مہاجرین کے بحران میں بھی سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کيا ہے۔ تاہم فیس بک مہاجرین کی مدد کے بجائے انہیں نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔
اشتہار
اسمارٹ فون کی ٹیکنالوجی نے مہاجرین اور تارکین وطن افراد کو درپیش کئی مشکلات کا حل نکالا ہے۔ پرخطر راستوں کو آسان بنانا ہو یا معلومات حاصل کرنا ہوں، اسمارٹ فون نے اس تناظر میں مدد فراہم کی ہے۔
اسمارٹ فونز کی متعدد ایپلیکيشنز، جیسی کہ جی پی ایس درست لوکیشن اور سفر کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں جبکہ واٹس ایپ، فیس بک اور ایسی دیگر ایپس اپنے عزیزوں سے رابطے میں رہنے کے لیے۔ یوں مہاجرین کے بحران میں اسمارٹ فون مہاجرین اور تارکین وطن افراد کے لیے ایک انتہائی قیمتی شے قرار دی جا رہی ہے۔
فیس بک کے حالیہ ڈیٹا اسکینڈل نے اس سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کئی سوالیہ نشانات اٹھائے ہیں۔ تاہم مہاجرین فی الحال شاید اپنے خفیہ کوائف کے عام ہونے کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں کیونکہ انہیں دیگر کئی اہم اور فوری مسائل کا سامنا ہے۔
اس کے باوجود یہ امر اہم ہے کہ فیس بک صارفین کے خفیہ کوائف کے غلط استعمال کے باعث جيسے عام شہری متاثر ہو سکتے ہیں، ویسا ہی مہاجرین کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
’لاکھوں میں ایک‘، پاکستانی تارک وطن پر دستاویزی فلم
03:14
انسانی اسمگلروں کا ایک آلہ
مہاجرین اور تارکین وطن فیس بک اور ایسی دیگر ویب سائٹس کو اپنے مہاجرت کے سفر کی منصوبہ بندی اور رابطوں کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن یہ پلیٹ فارمز اس تناظر میں ہمیشہ ان کی مدد نہیں کرتے۔ دراصل ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں کہ سوشل میڈیا کی کئی ویب سائٹس انسانوں کے اسمگلروں کو زیادہ فائدہ پہنچا رہی ہیں۔
قانون نافذ کرنے والی یورپی ایجنسی یوروپول کی طرف سے قائم کردہ یورپی مائیگرنٹ اسمگلنگ سینٹر (ای ایم ایس سی) کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں سوشل میڈیا کے ایک ہزار ایک سو پچاس اکاؤنٹس پر شبہ تھا کہ وہ انسانوں کے اسمگلروں نے بنائے تھے۔ سن دو ہزار پندرہ کے مقابلے میں سن دو ہزار سولہ میں ایسے اکاؤنٹس میں ستاسی فیصد اضافہ ہوا تھا۔
ای اسمگلنگ
یورپی مائیگرنٹ اسمگلنگ سینٹر (ای ایم ایس سی) کی طرف سے جاری کردہ ان اعدادوشمار کے تناظر میں یورو پول نے سماجی رابطوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کرنے کے عمل کو ’ای اسمگلنگ‘ کا نام دیا۔
ای ایم ایس سی کے مطابق غیر قانونی مہاجرت کو فروغ دینے کی خاطر آن لائن سرگرمیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے اور یوں یہ بحران زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔
اس سینٹر کی ایک رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مجرمانہ گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے سوشل میڈیا کی متعدد ویب سائٹس کا استعمال کر رہے ہیں۔ یورپی یونین رکن ممالک کی سرحدوں کے تحفظ کی ایجنسی ’فرونٹيکس‘ نے بھی کہا ہے کہ یہ گروہ آن لان کھلے عام انسانوں کی اسمگلنگ کی تشہیر کرتے ہیں۔
مہاجرین کی لاشیں پاکستان پہنچ گئیں
01:22
This browser does not support the video element.
تشدد کی لائیو اسٹریمنگ
فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر متعدد ویب سائٹس مہاجرین کی زندگی میں ایک اور پریشان کن کردار بھی ادا کر رہی ہیں۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے میڈیا اینڈ کمیونیکشن ڈائریکٹر لیونارڈ ڈوئل کے مطابق کئی نام نہاد پرائیویٹ چینلز تشدد اور ظلم وستم کے واقعات کی لائیو اسٹریم بھی کرتے ہیں تاکہ ان کے گھر والوں اور رشتہ داروں سے رقوم بٹوری جا سکیں۔
اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں، جن میں انسانوں کے اسمگلر پہلے غیر قانونی سفر کی خاطر رقوم لیتے ہیں اور بعد ازاں انہی مہاجرین کو اپنی قید میں رکھ کر ان افراد کے گھر والوں سے اضافی رقوم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیونارڈ ڈوئل کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مہاجرین اور تارکین وطن ان تلخ حقائق سے بے خبر ہیں اور وہ فیس بک یا سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس کے ذریعے ان اسمگلروں سے رابطے کرتے ہیں۔
اس تناظر میں لیونارڈ ڈوئل نے کہا کہ حکومتوں کو ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زور دینا چاہیے کہ وہ اپنی ویب سائٹس پر شائع کردہ تمام تر مواد کی ذمہ داری لیں۔
ان کا اصرار ہے کہ ایسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو اپنی سروسز کی نگرانی بڑھانا چاہیے تاکہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والے افراد کے خلاف کارروائی میں مدد مل سکے۔
ع ب / ع ص / انفو مائیگرنٹس
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘