جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین اور اسلام مخالف سیاسی جماعت AfD نے ایک دائیں بازو کے قوم پرست رہنما کو اپنا شریک سربراہ منتخب کر لیا۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس جماعت کا نقطہ نظر مزید سخت ہو سکتا ہے۔
اشتہار
جرمنی کی مہاجرین اور اسلام مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ (AfD) کی ہینوور شہر میں منعقد ہونے والی پارٹی کانگریس میں اس جماعت کے ارکان نے الیگزانڈر گاؤلینڈ کو اپنا شریک سربراہ منتخب کیا۔ گاؤلینڈ کو اے ایف ڈی جماعت کے ایک ایسے رکن کی حمایت کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے جس نے کہا تھا کہ تاریخ کو دوبارہ لکھا جانا چاہیے جس میں دوسری عالمی جنگ میں جرمن متاثرین کا ذکر بھی شامل ہونا چاہیے۔
اے ایف ڈی کے ارکان ہفتہ دو دسمبر کی شام ہینوور میں جس مقام پر اپنا شریک سربراہ منتخب کر رہے تھے، اس وقت اس دائیں بازو کی سیاسی جماعت کے ہزاروں مخالفین باہر مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر ’’ہینوور نازیوں کے خلاف ہے‘‘ اور ’’نسل پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہو‘‘ جیسے نعرے درج تھے۔
گزشتہ روز ہی قبل ازیں پولیس نے اُن درجنوں مظاہرین کے خلاف پانی کی تیز دھار پھینکنے والی گن کا استعمال کیا جنہوں نے کانگریس کے مقام کو جانے والی سڑک کو بند کر رکھا تھا۔ یہ مظاہرے دراصل اس جماعت کی سوچ کی مخالفت کا اظہار تھے۔ خیال رہے کہ اے ایف ڈی 24 ستمبر کو ہونے والے انتخابات میں وفاقی پارلیمان میں 100 کے قریب نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
ہینوور میں ہونے والی اے ایف ڈی کی پارٹی کانگریس میں اس جماعت کے سربراہ یورگ میوتھن اس عہدے پر برقرار رہنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ میوتھن کو اس جماعت کا ایک نسبتاﹰ اعتدال پسند رہنما قرار دیا جاتا ہے۔
پارٹی کانگریس کے دوران اے ایف ڈی کے مندوبین کو مختصر دورانیے کی ایک فلم بھی دکھائی گئی جس میں یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کی ایک ایسی تصویر پیش کی گئی جس میں بھکاریوں، پتھر پھینکنے والوں اور مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہی وہ تصورات ہیں جن کی بنیاد پر یہ دائیں بازو کی جماعت جرمنی کی کئی ایک ریاستوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ کا قیام 2013ء میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد یورو زون کی ان پالیسیوں کی مخالفت تھا جو اس بلاک کی کمزور معیشتوں کو مدد فراہم کرنے سے متعلق تھیں۔ یہ جماعت دو برس قبل مہاجرین کی بڑی تعداد میں جرمنی آمد سے قبل محض تین فیصد ووٹ حاصل کرتی رہی۔ تاہم دو برس کے دوران 1.6 ملین مہاجرین کی پناہ کی تلاش میں جرمنی آمد کے بعد اس جماعت نے مہاجرین مخالفت اور اسلام کے حوالے سے خوف کو بنیاد بنا کر جرمنی کی بہت سی ریاستوں میں اپنی حیثیت کو کافی مضبوط کر لیا۔ اس وقت یہ جماعت جرمنی کی کُل 16 ریاستوں کی اسمبلیوں میں سے 14 میں نشستیں رکھتی ہے۔