مہاجرین مخالف خاتون کا مہاجر سے عشق اور اب ممکنہ سزائے قید
شمشیر حیدر AFP
10 جون 2017
اس فرانسیسی خاتون نے مہاجر مخالف سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کو ووٹ دیا لیکن پھر اسے ایک ایرانی مہاجر سے عشق ہو گیا، جس کی مدد کرنے کے جرم میں اب اسے ممکنہ طور پر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
اشتہار
چوالیس سالہ اوغے نامی فرانسیسی خاتون کو غیر قانونی طور پر ایک غیر ملکی مہاجر کی مدد کرنے کے مقدمے کا سامنا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت ستائیس جون کو ہو رہی ہے اور جرم ثابت ہونے پر اوغے کو دس برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
فرانسیسی شہر کیلے کی رہائشی اوغے ہمیشہ مہاجر دوست انسان نہیں تھی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی نہ صرف ووٹ دینے تک حمایتی تھی بلکہ ان کے اشتہارات بھی بانٹتی پھرتی تھی۔ کیلے شہر کی ایک وجہ شہرت بھی وہاں قائم ’جنگل کیمپ‘ اور وہاں سے چینل ٹنل کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ جانے کی کوشش کرنے والے مہاجرین بھی ہیں۔
اوغے کا پہلا شوہر بھی فرانسیسی بارڈر پولیس کا ایک ایسا ملازم تھا، جو اسی کی طرح نیشنل فرنٹ کا حامی اور مہاجرین مخالف سوچ رکھتا تھا، دونوں کی شادی بیس برس تک قائم رہی۔
اس کی زندگی اور سوچ میں تبدیلی تب آئی، جب اس نے جنگل کیمپ میں مقیم ایک سوڈانی مہاجر کو لفٹ دی۔ جب اوغے نے اس بدنام زمانہ مہاجر کیمپ کے حالات دیکھے تو اس نے رضاکارانہ طور پر مہاجرین کی مدد کرنا شروع کر دی۔ یہیں پہلی مرتبہ اس کی ملاقات مختار سے ہوئی۔
فرانسیسی حکام نے کیمپ خالی کرانے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور مختار نے احتجاجاﹰ اپنے ہونٹ سی رکھے تھے۔ اوغے کو مختار سے پہلی نظر ہی میں عشق ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ مختار کو فرانسیسی زبان نہیں آتی تھی، انگریزی سے بھی کم واقفیت تھی، لیکن ’ہماری محبت کی کہانی گوگل ٹرانسلیٹر کی مدد سے شروع ہوئی‘۔
کچھ دن بعد وہاں کام کرنے والے رضاکاروں نے اوغے سے درخواست کی کہ وہ عارضی طور پر چند دنوں کے لیے مختار کو اپنے ہاں رکھ لے، جس کے بعد اسے غیر قانونی طور پر ایک گاڑی میں سوار کر کے برطانیہ بھیج دیا جائے گا۔
یہ منصوبہ تو کامیاب نہ ہوا لیکن مختار ایک ماہ تک اوغے کے ہاں مقیم رہا۔ مختار انگلینڈ جانے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے تھا اور اس کی درخواست پر اوغے نے اسے ایک ہزار یورو مالیت کی ایک چھوٹی کشتی خرید دی تاکہ وہ اس کی مدد سے برطانیہ روانہ ہو سکے۔
اوغے کہتی ہے، ’’اگر میں اس کی مدد نہ کرتی تو وہ کوئی اور راستہ اختیار کر لیتا۔ میں اسے رکنے پر قائل نہیں کر سکتی تھی۔‘‘
گیارہ جون سن 2016 کی صبح چار بجے مختار اور اس کے دوست کشتی میں سوار ہو کر برطانیہ جانے کے لیے روانہ ہوئے تو اسے الوداع کہنے کے لیے اوغے بھی وہاں موجود تھی۔
دو ماہ بعد فرانسیسی پولیس نے اس جرم میں اسے گرفتار کر لیا۔ اوغے نے انہیں ساری حقیقت بتا دی، ’کیوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا‘۔
مختار کامیابی سے برطانیہ پہنچ گیا تھا، جہاں اب وہ شیفیلڈ میں رہائش پذیر ہے اور اسے ورک پرمٹ بھی مل چکا ہے۔ اوغے اسے ملنے ہر دوسرے ہفتے وہاں جاتی ہے اور اس نے اپنی آپ بیتی پر مبنی ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اوغے لکھتی ہے، ’’مختار نے مجھے دوبارہ پیار کے معنی سکھائے، جو میں بھول چکی تھی لیکن اس سے بڑھ کر اس نے مجھے سچ کا مطلب سکھایا۔‘‘
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ سماعت کے لیے پیش ہو گی تو عدالت اس کے سچ کو کس انداز سے دیکھتی ہے۔
اپنے ملک سے فرار ہونے والے اور در در بھٹکنے والے لوگوں کو پناہ گزین کہا جاتا ہے۔ آئیے ملتے ہیں دس ایسی شخصیات سے جو پناہ گزین تو تھیں لیکن موسیقی، اداکاری، سائنس اور سیاست کے میدان میں وہ بلندیوں تک پہنچیں۔
تصویر: Imago/United Archives International
مارلینے ڈیٹريش
خوابیدہ آنکھوں اور دل لبھانے والی آواز کی مالک جرمن گلوکارہ اور اداکارہ مارلینے ڈیٹريش نازی جرمنی کو چھوڑ کرامریکا چلی گئی تھیں۔ سن 1939 میں انہوں نے امریکا کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ وہ ایک اہم پناہ گزین پروفائل تھیں، جس نے ہٹلر کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ نازی جرمنی میں ان کی فلموں کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن انہوں نے کہا تھا، ’’وہ جرمنی میں پیدا ہوئی ہیں اور ہمیشہ جرمن ہی رہیں گی۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
ہنری کسنجر
بین الاقوامی امور کے عالم اور امریکا کے 56 ویں وزیر خارجہ کی پیدائش جرمن ریاست باویریا میں ہوئی تھی۔ انہیں بھی نازی مظالم سے بچنے کے لیے 1938 میں جرمنی چھوڑنا پڑا تھا۔ امریکی خارجہ پالیسی کو ایک نیا رنگ دینے والے کسنجر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی خود کو جرمنی سے جدا محسوس نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
میڈلين البرائٹ
میڈلين البرائٹ امریکی وزیر خارجہ بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ سن 1997 سے 2001 تک اس عہدے پر فائز رہیں۔ ان کی پیدائش جدید دور کے چیک جمہوریہ میں ہوئی تھی۔ سن 1948 میں جب وہاں حکومت پر کمیونسٹوں کا کنٹرول ہو گیا تو میڈلين کے خاندان کو بھاگ کر امریکا جانا پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb
البرٹ آئن سٹائن
نظریہ اضافیت کے لیے مشہور جرمن یہودی نوبل یافتہ ماہر طبعیات البرٹ آئن سٹائن سن 1933 میں امریکا کے دورے پر تھے، جب ان پر یہ واضح ہو گیا کہ وہ واپس نازی جرمنی نہیں لوٹ سکتے ہیں۔ چودہ مارچ سن 1879 کو جرمن شہر اُلم میں پیدا ہونے والے ممتاز طبیعات دان آئن سٹائن اٹھارہ اپریل 1955 میں امریکی ریاست نیو جرسی کے شہر پرنسٹن میں انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: Imago/United Archives International
جارج وائڈنفلڈ
برطانوی یہودی مصنف وائڈنفلڈ کی پیدائش سن 1919 میں ویانا میں ہوئی تھی۔ جب نازیوں نے آسٹریا کو اپنا حصہ بنا لیا تو وہ لندن چلے گئے۔ انہوں نے اپنی ایک پبلشنگ کمپنی بھی کھولی اور اسرائیل کے پہلے صدر کے چیف آف اسٹاف بھی رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N.Bachmann
بیلا بارتوک
20 ویں صدی کے ہنگرئین موسیقار بیلا بارتوک یہودی نہیں تھے لیکن وہ نازی جرمنی اور یہودیوں پر ہونے والے مظالم کے مخالف تھے۔ سن 1940 میں انہیں امریکا جانا پڑا۔ وہ خود کو تمام تر تنازعات و اختلافات سے ماوراء قرار دیتے ہوئے امن و سلامتی کا پرچار کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images
مِلوس فورمین
مشہور فلم ڈائریکٹر ملوس فورمین سن 1968 میں پراگ میں پیدا ہوئے۔ انقلاب کے بعد انہیں اس وقت کے چیكوسلوواكيا چھوڑ کر امریکا میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔ مِیلوس کو ان کی دو عالمی شہرت یافتہ فلموں کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت ملی۔ One Flew Over the Cuckoo's Nest اور Amadeus پر انہیں آسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/V. Dargent
ازابیل ایندے
سن انیس سو تہتر میں چلی کے صدر سلواڈور ایندے کا تختہ الٹ دیا گیا تھا اور اسی دوران وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ تب ان کی بھتیجی ازابیل کو وینزویلا میں پناہ حاصل کرنا پڑ گئی تھی۔ بعدازاں انہوں نے امریکا سکونت اختیار کر لی تھی۔ مصنفہ کے طور پر انہیں بہت شہرت ملی۔ اس طلسمی حقیقت نگار مصننفہ کے دو ناولوں House of the Spirits اور Eva Luna کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔
تصویر: Koen van Weel/AFP/Getty Images
مريم مکیبا
مريم مكیبا جنہیں ’ماما افریقہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، امریکا کے دورے پر تھی جب جنوبی افریقہ کی حکومت نے نسلی عصبیت پر مبنی اس وقت کی ملکی حکومت کے خلاف مہم چلانے پر ان کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا۔ جنوبی افریقہ میں اس حکومت کے اختتام تک مکیبا نے کئی برسوں تک امریکا اور جمہوریہ گنی میں زندگی بسر کی۔
تصویر: Getty Images
سِٹنگ بُل
ٹاٹانكا ايوٹیک یعنی سِٹنگ بُل امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور مقامی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے والے سٹنگ بل کو سن 1877 سے سن 1881 تک پناہ گزین کے طور پر کینیڈا میں رہنا پڑا تھا۔