مہاجرین مخالف ہنگری کو ہنرمند تارکین وطن کی اشد ضرورت
5 مئی 2018
تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت، بے روزگاری کی شرح بھی کم لیکن ہنر مند افراد کی شدید ضرورت بھی۔ امیگریشن کے بارے میں سخت رویہ رکھنے والے یورپی ملک ہنگری کو درپیش یہ مسئلہ مزید شدت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
اشتہار
بوڈاپیسٹ کے نواح میں واقع ایک فیکٹری میں تئیس سالہ فالوسی ٹوتھ دھاتی پرزوں کو انتہائی گرم نمکین پانی میں ڈبو رہا ہے۔ ٹوتھ نے ٹیکنیکس سرفسز میں ملازمت کا آغاز ڈیڑھ برس قبل کیا تھا۔ یہ کمپنی جرمن کارساز ادارے آؤڈی سمیت کئی دیگر یورپی اداروں کے لیے دھاتی پرزے تیار کرتی ہے۔
سن 2008 میں اس کمپنی کے ملازمین کی کُل تعداد صرف گیارہ تھی لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس کے کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بوڈاپیسٹ میں اس کمپنی کے مینیجر گیولا یوہاش کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث انہیں مزید ہنرمند افراد کی ضرورت ہے لیکن انہیں کاریگروں کی تلاش میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
یوہاش کا کہنا ہے، ’’سن دو ہزار گیارہ اور بارہ میں جب ہم ایک نوکری کے لیے اشتہار دیتے تھے تو پچاس تا سو افراد ملازمت کے لیے درخواستیں جمع کراتے تھے۔ اس برس ہم نے تین آسامیوں کے لیے اشتہار دیا تو صرف چھ افراد ملازمت حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ان میں سے بھی تین افراد نے کہا کہ تنخواہ بہت کم ہے، اس لیے وہ یہ نوکری نہیں کریں گے۔ مجبوراﹰ مجھے باقی تین افراد کو ہی یہ نوکریاں دینا پڑیں۔‘‘
سب برسرروزگار، ملازمت کسے دیں؟
ہنگری میں سن 1989 میں کمیونزم کے خاتمے کے بعد مینوفیکچرنگ کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا آغاز ہوا۔ سن 2004 میں یورپی یونین کا رکن بننے کے بعد سے صنعتی ترقی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہنگری میں ہنرمند افراد کی قلت کا مسئلہ سن 2013 میں شروع ہوا اور اب یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ صورت اختیار کر چکا ہے۔
سن 2010 میں ہنگری کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد وکٹور اوربان نے صنعت کاری پر توجہ دی اور کئی مشہور غیر ملکی کمپنیوں نے ہنگری میں اپنے پیداواری پلانٹ لگائے۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘
تصویر: Reuters/K. Pempel
6 تصاویر1 | 6
وکٹور اوربان اپنی یہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں اور گزشتہ برس اپریل میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر فرد کے لیے روزگار کا ان کا منصوبہ مکمل ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ رواں برس کے آغاز میں ہنگری میں بے روزگاری کی شرح محض 3.8 فیصد تھی۔
تنخواہیں زیادہ، منافع کم
دوسری جانب بوڈاپیسٹ حکومت نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں کم از کم اجرت میں بھی مسلسل اضافہ کیا ہے۔ اسی وجہ سے ٹیکنیکس سرفسز کمپنی کے ملازمین کی موجودہ تنخواہ سن 2011 کے مقابلے میں چالیس فیصد زیادہ ہے۔
تنخواہوں میں اضافے کے سبب ہنگری کی صنعت میں اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے کمپنیوں کا منافع بھی مسلسل کم ہو رہا ہے۔
’کاریگر نہیں ہوں گے تو کمپنیاں بھی نہیں رہیں گی‘
ہنگری نے خاص طور پر غیر یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مائگریشن پالیسی نہایت سخت کر رکھی ہے۔ دوسری جانب پوڈاپیسٹ حکومت رومانیہ، سربیا اور یوکرائن جیسے ممالک سے سستی لیبر بھی اپنے ہاں لانے میں کچھ خاص کامیاب نہیں ہو پائی۔
مشرقی یورپی ممالک کے جو شہری ہنگری میں کام کرنے آتے بھی ہیں، ان کا اصل مقصد بھی صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ ہنگری کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد مغربی یورپی ممالک میں منتقل ہو جائیں۔
ہنرمند غیر یورپی تارکین وطن ہنگری کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ لیکن سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد سے وکٹور اوربان نے مہاجرت کے حوالے سے انتہائی سخت پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ ہنرمند افراد کی قلت کے سبب ہنگری میں کام کرنے والے ملکی اور غیر ملکی ادارے تاہم غیر یورپی ہنرمند افراد کو ملازمتیں دینے کی بھرپور خواہش رکھتے ہیں۔
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔