مہاجرین مراکز لیبیا میں نہیں بنیں گے، سالوینی کی تجویز مسترد
انفومائگرینٹس
27 جون 2018
لیبیا کے نائب وزیراعظم احمد معتیق نے اطالوی وزیرداخلہ سالوینی کی اُس تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے مہاجرین کے لیے میزبان مراکز اٹلی کے بجائے جنوبی لیبیا میں قائم کرنے کو کہا تھا۔
اشتہار
مہاجرین کے بارے میں خبریں فراہم کرنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق سالوینی پیر کے روز مہاجرین کے معاملے پر مذاکرات کرنے کے لیے لیبیا روانہ ہوئے تھے جہاں انہوں نے تارکین وطن کے استقبالیہ مراکز اٹلی کے بجائے جنوبی لیبیا میں قائم کرنے کی بات کی تھی۔
سالوینی نے طرابلس کے دورے کے موقع پر ٹویٹر پر ایک پیغام میں لکھا،’’استقبالیہ مراکز اٹلی میں؟ یہ اٹلی اور خود لیبیا کے لیے بھی مسئلہ ہو گا کیونکہ ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہم نے یہ میزبان مراکز لیبیا کی جنوبی سرحد پر قائم کرنے کی تجویز دی ہے تاکہ لیبیا یورپ کا قصد کرنے والے تارکین وطن کے لیے راہداری نہ بننے پائے۔‘‘
لیبیا کے نائب وزیر اعظم احمد معتیق نے تاہم مہاجرین کے لیے استقبالیہ مراکز لیبیا میں قائم کرنے کے آئیڈیے کو نا قابل عمل قرار دے دیا ہے۔ معتیق نے سالوینی کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا،’’ ہم لیبیا میں مہاجرین کے لیے مراکز بنائے جانے کی تجویز کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہیں۔ لیبیا کا قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
اٹلی کے وزیر داخلہ سالوینی نے اس دورے میں اعلان کیا ہے کہ رواں ماہ ستمبر میں مہاجرت کے مسئلے پر لیبیا میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اطالوی اخبار ’لا ریپبلکا‘ کی پیر 25 جون کی اشاعت میں لیبیا کے نائب وزیر اعظم احمد معتیق کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں معتیق نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ لیبیا اور اٹلی کی حکومتیں مہاجرین کے معاملے پر مل کر کام کر سکیں گی۔
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔