ایک نئی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں مہاجرین کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے تاہم میڈیا مہاجرین کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کو زیادہ کوریج فراہم کر رہا ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کا بحران سن دو ہزار پندرہ سے شہ سرخیوں میں ہے۔
اشتہار
جرمنی میں میڈیا رپورٹوں کے تجزیے پر مشتمل ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں سکونت پذیر غیر ملکیوں پر ہونے والے حملوں میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح جرمنی میں آباد غیر ملکیوں کی طرف سے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تاہم میڈیا میں غیر ملکیوں پر ہونے والے حملوں کے مقابلے میں غیر ملکیوں کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کو زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
اس مطالعاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر تھوماس ہیسٹرمان کے مطابق جرمنی میں غیر ملکیوں کے جرائم میں ملوث ہونے کے بارے میں میڈیا کی کوریج زیادہ ہے۔
مہاجرین کے خلاف زیادہ تر جرائم کا کھوج نہ لگایا جا سکا، رپورٹ
02:42
’میکرومیڈیا میڈیا اسکول‘ سے وابستہ پروفیسر ہیسٹرمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی ٹیم نے رواں برس جنوری سے اپریل تک شائع ہونے والے ملک کے نمایاں روزناموں کے 283 آرٹیکلز کے علاوہ ٹیلی وژن چینلز کی 81 رپورٹوں کا تجزیہ کیا۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن دو ہزار سولہ کی آمد کے سلسلے میں کولون میں منائی جانے والی سالِ نو کی تقریبات میں خواتین پر جنسی حملوں کے بعد جرمنی میں مہاجرین سے متعلق رپورٹنگ میں یہ تبدیلی نمایاں ہوئی ہے۔
تب ان حملوں کا الزام تارک وطن پس منظر کے حامل افراد پر ہی عائد کیا گیا تھا۔
پروفیسر ہیسٹرمان کے مطابق سن دو ہزار سات میں بھی جرمن میڈیا میں یہ چرچا ہوا تھا کہ ترک وطن پس منظر والے افراد جرائم میں زیادہ ملوث تھے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ طویل المدتی بنیادوں پر کیے گئے تجزیے کے مطابق اس برس میڈیا رپورٹنگ میں یہ عنصر مزید نمایاں ہوا ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں رواں برس غیر ملکیوں پر ہونے والے حملوں کی خبریں جرمن میڈیا میں پچاس فیصد تک کم رپورٹ کی گئیں، حالانکہ جرمن سکیورٹی ادارے مہاجرین کے شیلٹر ہاؤسز پر ہونے والوں حملوں کا باقاعدہ ڈیٹا اکٹھے کر رہے ہیں۔
دوسری طرف اس رپورٹ میں کہا ہے کہ جرمنی کے معروف روزنامے ’بلڈ‘ میں مہاجرین سے متعلق شائع کردہ چونسٹھ فیصد خبریں ایسی تھیں، جن میں ان کے جرائم میں ملوث ہونے کے بارے میں بات کی گئی۔ پروفیسر ہیسٹرمان کے مطابق اس طرح کی رپورٹنگ سے لوگوں کو مسخ شدہ معلومات پہنچتی ہیں، جس سے آسانی سے تعصبات جنم لے سکتے ہیں۔
اس تناظر میں انہوں نے مزید کہا، ’’لوگ سوچ سکتے ہیں کہ انضمام ایک بڑی غلطی ہے۔‘‘ پروفیسر ہیسٹرمان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں یہ بھی کہا کہ میڈیا کو متوازن رپورٹنگ کرنا چاہیے اور مہاجرین سے متعلق کامیاب کہانیوں کو بھی مناسب اور باقاعدہ طریقے سے بیان کرنا چاہیے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔