مہاجرین میں سے صرف ایک اعشاریہ پانچ فیصد واپس جائیں گے
10 مئی 2018
سن دو ہزار تیرہ سے لے کر اب تک جرمنی آنے والے مہاجر ین میں سے بہت کم افراد واپس بھیجے جائیں گے۔ یہ بات جرمن وفاقی حکومت نے دائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے ایک سوال کے جواب میں بتائی ہے۔
تصویر: Reuters/L. Barth
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے موصولہ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار تیرہ سے اکتیس مارچ سن دو ہزار اٹھارہ تک جرمنی میں پناہ کی غرض سے آنے والے 1.68 ملین مہاجرین میں سے جنہوں نے پناہ کی درخواستیں دائر کر رکھی تھیں، ان میں سے صرف چوبیس ہزار دو سو بارہ پناہ گزینوں کو جبری طور پر اُن کے ممالک واپس بھیجا جائے گا۔ جبری ملک بدر کیے جانے والے تارکین وطن کا یہ تناسب بمشکل ایک اعشاریہ پانچ فیصد بنتا ہے۔
ان مہاجرین میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق البانیہ، سربیا،کوسووو، مقدونیہ، روس، اور بوسنیا ہرزیگووینا سے ہے۔ علاوہ ازیں اطلاعات کے مطابق ابھی تک نو ہزار دو سو کے قریب ایسے تارکین وطن موجود ہیں جنہیں حتمی تاریخ اکتیس مارچ سن 2018 تک نہ تو جرمنی میں رہائش کی اجازت اور نہ ہی ڈلڈنگ (جن کے ملک بدر کیے جانے پر عارضی پابندی ہے) مل سکی۔
جرمنی میں پناہ کی مندرجہ بالا دونوں صورتیں نہ ہونے کی صورت میں ملک چھوڑنا لازمی ہوتا ہے تاہم ان افراد کا اب تک مہاجرین کے مرکزی رجسٹر میں اندراج نہیں کیا گیا۔
سن 2013 سے اب تک جرمنی آئے تارکین وطن میں سے اب تک قریب سات لاکھ افراد کو تحفظ کی حیثیت دی گئی ہے کیونکہ ان کو اپنے ملکوں میں یا تو جان کا خطرہ تھا یا پھر تشدد کیے جانے کا۔ اس کے علاوہ دو لاکھ کے قریب پناہ گزینوں کو ڈلڈنگ یا رہائشی اجازت نامہ انسانی بنیادوں پر دیا گیا ہے۔
ص ح/ ڈی پی اے
مہاجرین کی کہانی، ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘
فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈائریکٹر اکی کاؤرِس میکی نے برلن فلم فیسٹیول میں اس فلم پر سلور بیئر حاصل کیا تھا۔ اب یہ فلم جرمن سینما گھروں میں ریلیز کی جا رہی ہے۔
تصویر: Sputnik Oy
دو افراد ایک فلم
ہدایت کار کاؤرِس میکی کی فلمیں چبھنے والے کرداروں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس تازہ فلم میں وہ ایک بار پھر دو زبردست کردار تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک شامی مہاجر خالد علی کا کردار ہے، جسے شیروان حاجی (بائیں جانب) نے ادا کیا اور دوسرا والڈیمار وِکسٹروم کا کردار ہے، جسے زاکاری کوسمانین نے نبھایا۔
تصویر: Sputnik Oy
کامیاب فلم ساز
فروری 2017 میں 67ویں برلن فلم فیسٹیول میں اس فنِش فلم ساز کو ’’دا ادر سائیڈ آف ہوپ‘‘ یا ’’امید کا دوسرا رُخ‘‘ پر سلور بیئر ایوارڈ ملا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/B. Pedersen
فن لینڈ کی مہمان نوازی
اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اپنے آبائی وطن کو چھوڑ کر خطرناک راستوں سے دیگر ممالک تک پہنچنے والے مہاجرین کیسا محسوس کرتے ہیں۔ اس میں مہمان نوازی کے مناظر بھی دکھائے گئے ہیں، جب فلم کے شامی مہاجر کردار کو ایک ریستوران میں کام کے لیے خوش آمدید کہنے والے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
مشکلات کی ترجمانی
فلم کے امید بکھیرتے رنگوں کے ساتھ ساتھ شامی مہاجرین کے فن لینڈ میں ان تکلیف دہ تجربات کو بھی دکھایا گیا ہے، جو سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے اور فن لینڈ میں نیونازیوں کی طرف سے ایک مہاجرین کیمپ پر حملے کی صورت میں ہے۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
کاؤرِس میکی کا اسٹائل
اس فلم میں ہدایت کار کاؤرِس میکی کا روایتی رنگ نظر آتا ہے، جو فلم میں سنیما کی تاریخ کے حوالے، مذاق اور سنجیدگی کا امتزاج، اچھی اداکاری اور درست اور اصل موسیقی جیسے شعبوں میں مضبوطی کی صورت میں ہے۔
تصویر: Sputnik Oy/M. Hukkanen
برلن میں تعریف
برلن فلم فیسٹیول میں یہ فلم پیش کی گئی تھی، تو اس نے ناقدین اور عوام کی توجہ فوراﹰ ہی حاصل کر لی۔ یہ فلم قہقہوں کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے مسائل اور زندگیوں کو تفصیل سے پیش کرتی ہے۔
تصویر: Getty Images/P. le Segretain
کاؤرِس میکی کی گزشتہ فلم
کاؤرِس میکی نے مہاجرت ہی کے موضوع پر اس سے قبل بھی فلم بنائی تھی۔ اس وقت یورپ کو مشرقِ وسطیٰ سے مہاجرین کے اتنے بڑے بہاؤ کا سامنا نہیں تھا۔ سن 2011ء میں کاؤرِس میکی نے اپنی فلم ’لے ہاورے‘ نمائش کے لیے پیش کی تھی۔ اس فلم میں افریقہ سے ہجرت کرنے والے ایک لکھاری کی کہانی پیش کی گئی تھی، جو یورپ پہنچا اور موچی کا کام شروع کیا۔