مہاجرین میں شناختی دستاويزات کی آن لائن تجارت عروج پر
23 اپریل 2018
ایک تازہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ جرمنی میں پناہ حاصل کرنے والے سینکڑوں شامی مہاجرین نے اپنے سفری دستاویزات اسمگلروں کو فروخت کیے ہیں، جنہیں استعمال کر کے دیگر مہاجرین غیرقانونی طور پر جرمنی داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اشتہار
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں پناہ حاصل کرنے والے سینکڑوں افراد نے اپنے جرمن سفری دستاویزات انسانوں کے اسمگلروں کو فروخت کیے۔ بعد ازاں انہی سفری دستاویزات کی مدد سے غیرقانونی طور پر متعدد مہاجرین جرمنی داخل ہونے میں کامیاب بھی ہوئے۔ اس کی ایک مثال شامی مہاجر ابو احمد کی ہے۔ ابو احمد نے جرمنی میں دو برس گزارنے کے بعد يہ فیصلہ کیا کہ وہ واپس ترکی چلا جائے۔ اس کی وجہ اپنے کبنے سے دوری بنی۔ وہ اپنے بچوں اور بیوی کے بغیر دو برس تک جرمن شہر اوبرہاؤزن میں قیام پذیر رہا جبکہ اس دوران اس کا کنبہ ترکی میں بطور مہاجر رہ رہا تھا۔
چالیس سالہ احمد نے بتایا کہ اس نے یونانی شہر تھیالونسکی میں اپنے جرمن سفری دستاویزات اُسی اسمگلر کو فروخت کیے، جس نے اسے ترکی داخل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انفو مائیگرنٹس سے گفتگو میں اس نے مزید بتایا کہ یوں اسے پندرہ ہزار یورو کی کمائی بھی ہوئی۔ احمد کے مطابق جب اس نے يہ فیصلہ کیا کہ اس نے مزید جرمنی نہیں رہنا، تو اس کے لیے سفری کاغذات بے کار ہو گئے۔ جرمن میگزين اشپیگل کے مطابق احمد ان سینکڑوں افراد میں شامل ہے، جنہوں نے اپنے جرمن سفری دستاویزات فروخت کیے ہیں۔
حکام نے بتایا ہے کہ سن دو ہزار سولہ کے بعد سے ترکی میں قائم یورپی قونصلیٹ میں اپنے سفری کاغذات کی گمشدگی کی اطلاع دینے والے شامی مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ امکان ہے کہ ان مہاجرین نے اپنے سفری دستاویزات فروخت کیے ہوں یا کسی اور کو دانستہ طور پر دے دیے ہوں۔ ڈيئر اشپیگل کے مطابق انہی اصلی سفری کاغذات کی وجہ سے دیگر شامی مہاجرین غیر قانونی طور پر جرمنی داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
جرمن وزارت داخلہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ کم از کم 554 ایسے کیسوں کی تصدیق کی جا سکتی ہے، جن میں ایسے ہی حقیقی سفری دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے لوگ غیرقانونی طور پر جرمنی میں داخل ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے سو سفری دستاویزات جرمنی میں جاری کیے گئے تھے، ننانوے اٹلی سے اور باون فرانس سے۔ اس کے علاوہ سویڈن، یونان اور بیلجیم سے بھی کچھ ایسے کیس رجسٹر ہوئے ہیں۔
اشپیگل کے مطابق ان سفری کاغذات کی تجارت بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہو رہی ہے۔ یورو پول نے گزشتہ سال ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس پکڑے تھے، جہاں کھلے عام اصلی پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس اور شناختی کارڈ پانچ سو یورو تک میں فروخت کیے جا رہے تھے۔ کچھ لوگ ایسے دستاویزات ان لوگوں کو فروخت کرتے ہیں، جو ان کے مالکان کی شکل سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اس تناظر میں جرمن سیاستدانوں نے زور دیا ہے کہ اس طرح کی جعل سازی کی روک تھام کے لیے مؤثر کوششیں کیں جائيں۔
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔