جرمنی کو یورپی یونین سے فی مہاجر 2800 یورو ملیں گے
1 جون 2018
یورپی یونین سن 2021 تا 2027 کے بجٹ میں جرمنی کو چار اعشاریہ پانچ بلین یورو فراہم کرے گی۔ یورپی یونین یہ رقم جرمنی میں مہاجرین کی میزبانی پر اٹھنے والے اخراجات کی مد میں بطور زر تلافی ادا کر رہی ہے۔
اشتہار
یورپی یونین سن 2021 تا 2027 کے بجٹ میں جرمنی کو چار اعشاریہ پانچ بلین یورو فراہم کرے گی۔ یورپی یونین یہ رقم جرمنی میں مہاجرین کی میزبانی پر اٹھنے والے اخراجات کی مد میں بطور زر تلافی ادا کر رہی ہے۔
جرمن اخبار ’فرانکفرٹر الگامائنے سائیٹنگ‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ سن دو ہزار تیرہ سے یورپی یونین کی حدود سے باہر سے جرمنی آنے والے ہر تارک وطن پر اٹھنے والے اخراجات کے ازالے کے لیے جرمنی کو فی مہاجر اٹھائیس سو یورو ادا کیے جانے ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے رواں برس فروری میں مہاجرین کے معاملے میں تعاون نہ کرنے والے یورہی یونین رکن ممالک کے تعمیری فنڈز میں بطور سزا کٹوتی کا مطالبہ کیا تھا تاہم دیگر رہنماؤں کی مزاحمت کے باعث وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی تھیں۔
فرانکفرٹر الگامائنے سائٹنگ اخبار لکھتا ہے کہ سن دو ہزار تیرہ سے پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے فی تارک وطن اٹھائیس سو یورو دیے جانا ہیں تاہم ان اعداد و شمار میں ایسے افراد کو نہیں گنا جائے گا جو جرمنی آئے تو تھے لیکن پھر واپس چلے گئے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یورپی شماریاتی ادارے یورو اسٹیٹ کے اعداد وشمار کے مطابق سن دو ہزار سترہ تک قریب ایک اعشاریہ سات ملین مہاجرین جرمنی آئے تھے۔ ان میں سے تقریباﹰ نصف تارکین وطن صرف سن دو ہزار پندرہ میں جرمنی پہنچے تھے۔
جرمنی کو ملنے والے چار اعشاریہ پانچ بلین یورو اُس تعمیری فنڈ کا حصہ ہیں جس کے ذریعے یورپی یونین کے اقتصادی طور پر کمزور رکن ممالک کی مدد کی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ یورپ میں مہاجرت کے بحران کے سر اٹھانے کے بعد سے ہی یورپی یونین بلاک میں مہاجرین کا زیادہ بار جرمنی کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پناہ گزینوں کی منصفانہ تقسیم کے مسئلے کا حل گزشتہ تین برس سے نہیں نکالا جا سکا۔ اس تنازعے نے اب تک يورپی بلاک کو تقسیم کر رکھا ہے۔
جرمنی جیسے امیر ممالک، جو عموماﹰ یورپ میں مہاجرین کی حتمی منزل ثابت ہوتے ہیں، بھی اس بات پر مصر ہیں کہ ایسا کوئی معاہدہ طے ہونا چاہیے جس کے بعد یونین کا کوئی رکن ملک بھی یورپ آنے والے مہاجرین کی میزبانی سے کلّی طور پر دستبردار نہ ہو سکے۔
ص ح/ کے این اے
یونان میں تارکینِ وطن کی کبھی ختم نہ ہونے والی آزمائشیں
یونان کے دوسرے بڑے شہر تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ ٹرین ویگنوں میں رہنے والے پناہ گزین یونان سے نکلنے کی غرض سے مال گاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سالہ محمد سے جب ڈی ڈبلیو نے سوال کیا کہ چھپ چھپا کر مال گاڑیوں میں سوار ہونے کی کوشش کتنی خطرناک ہو سکتی ہے تو اُس کا جواب تھا، ’ خطرہ مول نہ لیا تو زندگی کا کیا مزہ۔‘
تصویر: DW/D. Tosidis
پیسے کب تک ساتھ دیں گے؟
الجزائر کے انور ایم اور احمد اے مال گاڑی کے ایک پرانے خالی ڈبّے میں بیٹھے اگلی مال گاڑی کا انتظار کر رہے ہیں۔ انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ایک جعلی پاسپورٹ 1500 یورو میں بنتا ہے اور انسانی اسمگلر پورٹ آف پترس سے اٹلی تک کے 600 یورو لیتے ہیں۔ میرے پاس صرف 25 یورو ہیں جنہیں میں سربیا کے لیے بچا کے رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
حتمی منزل؟
الجزائر کا 29 سالہ مہاجر ذکی ایک متروک ٹرین ویگن کے اندر آرام کر رہا ہے۔ وہ نو ماہ قبل یونان پنہچا تھا۔ ذکی نے ایک ماہ زیتون کے ایک باغ میں کام بھی کیا۔ اُس نے چھ مرتبہ جرمنی جانے کی کوشش کی۔ اُس کی آخری کوشش کسی حد تک کامیاب ہو گئی اور اب وہ کم از کم بلقان میں تو موجود ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
ٹرین کہیں لے کر نہیں جاتی
ایک مراکشی تارکِ وطن ایک پرانی ٹرین کے اندر بیٹھا یونان سے اپنے فرار کا منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ اس تارکِ وطن کا کہنا ہے کہ وہ تین بار یونانی مقدونیائی سرحد پر اور ایک بار پورٹ آف پترس پر پکڑا گیا جب وہ ایک ٹرک میں چھپ کر آگے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چھپنے کا وقت
سولہ سالہ جلوان 23 سال کے عبدالرحمن کو مال گاڑی کے نچلے حصے میں میں چھپنے میں مدد دے رہا ہے۔ یہ مال گاڑی ایک اسٹیشن پر انجنوں کی تبدیلی کے لیے رکی ہے۔ سکیورٹی گارڈز کے مطابق یہ وہ پہلی جگہ ہے جہاں سے مقدونین پولیس تلاش کا عمل شروع کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
مہاجرین کی نامعلوم منزل
چونکہ مال برادر ریل گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل پہلے سے طے نہیں ہوتا اس لیے ان پر سوار ہونے والے تارکینِ وطن کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ٹرین انہیں کہاں پہنچائے گی۔ مہاجرین کی شمال میں ترجیحی سرحد کے بجائے کبھی کبھی یہ ایتھنز پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
آخری ہدایات
الجزائر سے تعلق رکھنے والا ایک تارک وطن اپنے دوست کو آخری ہدایات دے رہا کہ دھات لے جانے والی مال گاڑی میں خود کو کس طرح چھپانا ہے۔
تصویر: DW/D. Tosidis
فرار کا راستہ
نوجوان تارکینِ وطن علاقے میں گشت پر مامور نجی سکیورٹی گارڈز سے چھپنے کے لیے ٹرین سے چھلانگ لگا رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
اشیائے خورد و نوش کی فراہمی
تارکِ وطن محمد قریبی مہاجر کیمپ سے اپنے دوستوں کے لیے خوراک اور پانی لے کر جا رہا ہے جو پہلے سے ایک مال گاڑی میں چھپے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
یونانی ریلوے کارکنوں نے بھی آنکھیں بند کر لیں
تھیسالونیکی کے ریلوے اسٹیشن پر مامور ریلوے کارکن دوپہر کے وقفے میں تاش کھیلتے ہیں۔ ایک ریلوے کارکن کا کہنا ہے،’’ ایک دن یہ تارکینِ وطن ٹرین میں چھپ کر جاتے ہیں اور اگلے ہی روز واپس آجاتے ہیں۔ گزشتہ موسمِ گرما سے یہ روز ہو رہا ہے۔ یہ خطرناک ہے لیکن اُن کو روکنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D. Tosidis
خطرے کا نشان
یونانی حکام نے عربی زبان میں ریلوے لائن کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی تاروں کے حوالے سے وارننگ سائن آویزاں کر رکھا ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایک الجیرین تارکِ وطن ٹرین پر کودنے کی کوشش میں کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔