چیک جمہوریہ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کی جانب سے عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ پیسے کسے دینا چاہتے ہیں، بچوں اور معمر افراد کو یا مسلمانوں اور مہاجرین کو؟
اشتہار
انتخابی مہم سے متعلق ایک ویڈیو کلپ میں برقعے اور نقاب پہنے مہاجرین کو ایک معمر خاتون پر حملے کرتے، اسے لاتیں اور گھونسے مارتے اور سڑک کنارے بے بس چھوڑ کر چلتے دکھایا گیا ہے، جس کے ساتھ ہی لکھا ہے، ’’ویلفیئر فائدے‘‘۔
اس کلپ کے ذریعے چیک جمہوریہ کے ووٹروں سے کہا جاتا ہے، ’’آپ ایک فیصلہ کریں کہ آیا آپ اپنا پیسہ اپنے بچوں اور بزرگوں کو دینا چاہتے ہیں یا مسلمانوں اور افریقیوں کو؟‘‘
اکتوبر کی بیس اور اکیس تاریخ کو چیک جمہوریہ میں عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے، جس میں 31 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ فرانس میں نیشنل فرنٹ، ہالینڈ میں گیرٹ وِلڈرز کی جماعت، جرمنی میں آلٹرنیٹیو فار جرمنی اور آسٹریا میں عوامیت پسند جماعت فریڈم پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کی تناظر میں میں چیک جمہوریہ میں بھی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی کوشش ہے کہ وہ مہاجرین کے مسئلے کو اپنی عوامی مقبولیت میں اضافے اور ماضی کے مقابلے میں زیادہ نشستوں کے حصول کے لیے استعمال کریں۔
دیگر ممالک کے مقابلے میں چیک جمہوریہ میں مہاجرین کی انتہائی قلیل تعداد کے باوجود یہاں یہ معاملہ انتخابی مہم کا بنیادی موضوع بنا ہوا ہے۔
تین یورپی ممالک کی بارڈر کنٹرول مشقیں
01:33
دس اعشاریہ چھ ملین آبادی کے اس ملک میں صدر نے بھی کھلے عام مسلم مخالف بیانات دیے ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے چیک جمہوریہ سے کہا گیا تھا کہ وہ 16 سو مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے، مگر گزشتہ دو برسوں میں اس ملک میں صرف 12 تارکین وطن کو قبول کیا گیا ہے۔
مہاجرین کے بحران کے عروج کے دور میں گو کہ تارکین وطن نے امیر مغربی یورپی ممالک کا رخ کیا، تاہم چیک جمہوریہ میں مختلف جماعتیں مہاجرین کی آمد اور دہشت گردی اور اقتصادی مسائل کے خوف کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں، تاکہ ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کریں۔
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
8 تصاویر1 | 8
یہ بات اہم ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے یونان اور اٹلی میں موجود ہزاروں مہاجرین کو مختلف رکن ریاستوں میں بسانے کے منصوبے پر سلواکیہ، ہنگری، پولینڈ اور چیک جمہوریہ عمل درآمد سے انکاری ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان انتخابات میں مہاجرین کے خلاف انتہائی سخت موقف کی حامل جماعت فریڈم اینڈ ڈائریکٹ ڈیموکریسی جماعت ماضی کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔
رواں برس اپریل میں ہوئے ایک عوامی جائزے میں 60 فیصد چیک عوام نے کہا تھا کہ ان کے ملک کو مہاجرین کو قبول نہیں کرنا چاہیے، جب کہ فقط تین فیصد کا موقف تھا کہ تارکین وطن کو چیک جمہوریہ میں جگہ دی جانا چاہیے۔