مہاجرین کا انگلش چینل عبور کرنا بڑھ گیا، برطانیہ کو تشویش
28 دسمبر 2018
برطانیہ نے کہا ہے کہ مہاجرین کی جانب سے غیر قانونی طور پر رُود بارِ انگلستان کو عبور کرنے کے واقعات میں اضافے پر لندن حکومت کو ’شدید تحفظات‘ ہیں۔ کرسمس کے روز چالیس مہاجرین کو انگلش چینل میں ڈوبنے سے بچایا گیا تھا۔
اشتہار
برطانوی سرحدی حکام کو جمعرات کے روز ملک کے جنوب مشرقی ساحلی شہر ’کینٹ‘ سے تین مختلف مقامات پر تیئس کے قریب ایرانی باشندے ملے تھے۔ اس سے چند گھنٹے قبل ہی فرانسیسی بحری حکام نے سمندری گزرگاہ انگلش چینل میں خستہ حال کشتیوں پر سوار گیارہ تارکین وطن کو امدادی کارروائی کرتے ہوئے ڈوبنے سے بچایا تھا۔
اس حوالے سے برطانوی وزیر برائے مہاجرت کیرولین نوکس کا کہنا تھا،’’ حالیہ دنوں میں انگلش چینل کو غیر قانونی طریقے سے عبور کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر برطانیہ کو تشویش ہے۔ ان میں سے کچھ تو واضح طور پر منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے پلان کیے جاتے ہیں جبکہ کچھ انفرادی طور پر موقع دیکھتے ہوئے سمندر پار کر کے انگلستان پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
اس تناظر میں سب سے پہلے جمعرات کے روز کینٹ کے قصبے میں ایک ساحل سے ملنے والے گیارہ ایرانی مہاجرین تھے جو شمالی فرانس سے چار میٹر لمبی ربڑ کی کشتی پر یہاں تک پہنچے تھے۔
برطانوی وزارت داخلہ کے مطابق ہر تارک وطن کوطبی امداد دی جا چکی ہے۔ ملکی وزارت داخلہ نے بیان میں مزید کہا ہے کہ تمام بالغ مہاجرین کو انٹرویو کی غرض سے امیگریشن حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ اُن کے ہمراہ آنے والے بچوں کو سوشل سروس مہیا کرنے والے اداروں کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ آج مقامی وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے ڈوور کی بندر گاہ کے قریب دو اور کشتیاں ملی ہیں جن میں چودہ ایرانی مہاجرین سوار تھے۔
خیال رہے کہ انگلش چینل میں برطانوی اور فرانسیسی سمندری نگرانی کے محکموں کے اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے کئی کشتیوں پر سوار چالیس غیرملکی تارکین وطن کو بچا کر اپنی تحویل میں لیا تھا۔ دونوں ملکوں کے کوسٹ گارڈز نے یہ کارروائی کرسمس کے دن یعنی منگل کو کی تھی۔ برطانوی ہوم آفس نے بتایا تھا کہ مختلف کشتیوں پر سوار تارکین وطن کا تعلق عراق، ایران اور افغانستان سے ہے۔
رودبار انگلستان یا انگلش چینل شمالی سمندر اور بحر اوقیانوس کو جوڑتا ہے۔ یہ خطرناک سمندری راستہ جنوبی انگلستان اور شمالی فرانس کے درمیان واقع ہے۔ یہ تنگ سمندری گزرگاہ بنیادی طور پر آبنائے ڈوور کا حصہ ہے۔ اس کی مجموعی لمبائی 560 کلومیٹر اور چوڑائی 33 کلومیٹر سے زائد ہے۔
ص ح / ا ا / نیوز ایجنسی
’جنگلاتی کیمپ‘ سے مہاجرین کی جزوی بے دخلی
فرانسیسی حکام نے برطانیہ کی طرف جانے والی یورو ٹنل کے قریب مہاجرین کے ’جنگلاتی کیمپ‘ کو ہٹانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ وہاں بفر زون قائم کیا جا سکے۔ کیمپ کے رہائشی اب اپنی جمع پونجی بچانے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
نئی جگہ کی تلاش
فرانسیسی حکام نے برطانیہ اور فرانس کے درمیان زیر سمندر یورو ٹنل کی طرف جانے والی ہائی وے سے ملحق ایک سو میٹر کا بفر زون بنانے کے لیے ’جنگل کیمپ‘ خالی کیے جانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میں رضاکار مہاجرین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چوبیس گھنٹے پولیس کی نگرانی
تصویر میں اوپر نظر آنے والی ہائی وے یورو ٹنل کی طرف جاتی ہے۔ مہاجرین برطانیہ پہنچنے کے لیے اس راستے سے گزرنے والے ٹرکوں میں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پولیس کی بھارتی نفری تعینات ہے تاکہ برطانیہ میں غیر قانونی داخلے کی کوشش کرنے والوں کو روکا جا سکے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہر ممکن طریقے سے
مہاجرین کو یہ جگہ خالی کرنے کے لیے جمعرات تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ یہ بفر زون کب تک مکمل طور پر خالی ہو سکے گا، اس بارے میں حتمی تاریخ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ لیکن رضا کار تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ جمعے کے روز تقریباﹰ ایک سو شیلٹرز کو نئی جگہوں پر منتقل کیا گیا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
نئے علاقے کی صفائی
رضاکار تنظیم Care4Calais کے اراکین مہاجرین کی رہائش کے لیے نئی جگہ صاف کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کی رضاکار خاتون روتھ بوگیوتھ کہتی ہیں کہ جب وہ افغانستان میں تھیں، تو انہیں ہر گھر سے محبت ملی اور ان کی مہمان نوازی کی گئی۔ اسی لیے اب وہ ان مہاجرین کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بلا تشدد بے دخلی
ابھی تک کچھ مہاجرین کیمپ کے اسی منہدم کر دیے گئے حصے میں رہ رہے ہیں۔ نئے بفر زون کے قیام سے ’جنگلاتی کیمپ‘ میں مقیم تقریباﹰ پندرہ سو سے ساڑھے چار ہزار تک مہاجرین متاثر ہوں گے۔ گزشتہ چار ماہ سے کَیلے میں مقیم افغان مہاجر سیف اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی رہائش نہیں چھوڑے گا۔ لیکن اگر پولیس آئے گی، تو وہ بغیر کسی مزاحمت کے وہاں سے ہٹ جائے گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کنٹینر کیمپ
فرانسیسی حکومت کَیلے کے قریب ہی مہاجرین کے لیے ایک نیا کنٹینر کیمپ تعمیر کر رہی ہے۔ اس نئے کیمپ میں دو ہزار مہاجرین کو رکھا جائے گا لیکن تارکین وطن وہاں جانے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ وہاں رہائش کے لیے ان کے فنگر پرنٹس لیے جائیں گے اور اس طرح ان کے یورپ میں سیاسی پناہ کے مواقع کم ہو جائیں گے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
فرانسیسی مزاحمت
شام کے ایک مہاجر محمد شیخ کا کہنا تھا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ فرانس ان کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے، ’’وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بیوقوف ہیں۔ نئے کیمپ کا بہانہ بنا کر وہ ہمارے فنگر پرنٹس حاصل کر لیں گے۔ وہ ایک جیل کی طرح ہے۔ کیمپ میں داخلے کے بعد وہ ہمیں وہاں سے جانے نہیں دیں گے اور میں یہاں فرانس میں رہنا نہیں چاہتا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
بڑھتی ہوئی کشیدگی
بفر زون کو خالی کرنے کے نوٹس اور پولیس کی بڑھتی ہوئی نفری کی وجہ سے کیمپ میں لڑائیوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اکثر اوقات ڈاکٹروں کو ان مہاجرین کا علاج کرنا پڑتا ہے، جو یا تو آپس کی لڑائیوں میں زخمی ہوئے ہوں یا پھر رات کے وقت پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شدید ہوتا ہوا مسئلہ
مہاجرین کو خوف ہے کہ حکومت آہستہ آہستہ ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ یہاں سے فرار ہونے والے مہاجرین دیگر جگہوں پر جنگلاتی علاقوں میں کیمپ قائم کر رہے ہیں۔ یہاں کے ایک سو بیس مہاجرین نقل مکانی کر کے بیلجیم میں اپنا ایک نیا کیمپ آباد کر چکے ہیں۔ اب یہ مسئلہ مختلف یورپی علاقوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔