اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی نے فرانس کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پیرس نے ’سرکاری سطح پر معذرت‘ نہ کی تو فرانسیسی صدر اور اطالوی وزیراعظم کے مابین طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی جائے گی۔
اشتہار
روم اور پیرس حکومتوں کے مابین سفارتی کشیدگی کا سبب فرانسیسی صدر اور کئی دیگر فرانسیسی رہنماؤں کی جانب سے مہاجرین سے بھرے امدادی بحری جہاز کو اطالوی ساحلوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دینے کے اطالوی فیصلے بعد دیے گئے بیانات بنے۔
اسی سفارتی کشیدگی کے باعث اطالوی وزیر اقتصادیات اور ان کے فرانسیسی ہم منصب کے مابین آج ہونے والی ملاقات بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔
اٹلی کی دائیں بازو کی عوامیت پسند نئی حکومت نے فرانسیسی امدادی تنظیم ایس او ایس میڈیٹرینی کے بحری جہاز کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے روک دیا تھا۔ اس بحری جہاز میں کئی حاملہ خواتین اور سینکڑوں بچوں سمیت 629 تارکین وطن سوار تھے، جنہیں بحیرہ روم سے ریسکیو کیا گیا تھا۔ اٹلی کے انکار کے بعد ان مہاجرین کو اسپین روانہ کر دیا گیا لیکن اطالوی حکومت کے اس فیصلے کو فرانس سمیت کئی دیگر ممالک اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے بحیرہ روم سے ریسکیو کیے گئے مہاجرین کو اٹلی آنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے پر روم حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس فیصلے کو ’مایوس کن اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا تھا جب کہ ماکروں کی پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ اس معاملے میں اٹلی کے اقدامات ’متلی کا باعث‘ بننے والے تھے۔
ان بیانات کے بعد آج تیرہ جون بروز بدھ اٹلی نے روم میں تعینات فرانسیسی سفیر کو وضاحت کے لیے طلب کر لیا تھا۔ اطالوی دفتر خارجہ کے مطابق، ’’روم حکومت فرانسیسی صدر کے عوامی طور پر جاری کیے گئے ان بیانات کو ناقابل قبول سمجھتی ہے۔‘‘ اطالوی وزارت خارجہ کے مطابق ایسے بیانات سے اٹلی اور فرانس کے تعلقات متاثر ہوں گے۔
فرانسیسی صدر ماکروں اور اطالوی وزیر اعظم جوزیپے کونٹے پندرہ جون بروز جمعہ ملاقات کر رہے ہیں۔ اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی، جو مہاجرین کے حوالے سے سخت رویہ رکھتے ہیں، نے فرانسیسی بیانات پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ’سرکاری معذرت‘ طلب کی ہے۔
سالوینی نے فرانس سے مطالبہ کیا پیرس حکومت مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر سرکاری سطح پر معذرت نہ کی گئی تو وزیر اعظم کونٹے فرانس کا دورہ نہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے۔‘‘
دوسری جانب اٹلی کے سخت ردِعمل کے جواب میں فرانسیسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پیرس حکومت اٹلی پر بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ سے ’بخوبی آگاہ‘ ہے اور ’روم حکومت سے تعاون اور مذکرات‘ جاری رکھنے میں سنجیدہ بھی ہے۔
ش ح / ع ب (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمنی سے پاکستانیوں کی ملک بدریاں: کب، کتنے، کس قیمت پر؟
گزشتہ برس جرمنی سے بائیس ہزار افراد کو ملک بدر کیا گیا جن میں سے قریب نو ہزار کو خصوصی پروازوں کے ذریعے وطن واپس بھیجا گیا۔ ان میں کتنے پاکستانی تھے اور انہیں کب اور کس قیمت پر ملک بدر کیا گیا؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
26 جنوری 2017
اس دن جرمن شہر ہینوور کے ہوائی اڈے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سات پاکستانی تارکین وطن کو واپس پاکستان بھیجا گیا۔ اس فلائٹ میں چوبیس جرمن اہلکار بھی پاکستانی تارکین وطن کے ہمراہ تھے اور پرواز پر قریب سینتالیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
7 مارچ 2017
ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اس روز خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی ملک بدر ہوئے۔ ان کے ہمراہ وفاقی جرمن پولیس اور دیگر وفاقی اداروں کے اٹھائیس اہلکار بھی تھے جب کہ ملک بدری کے لیے اس فلائٹ کا خرچہ پینتالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: Imago/epd
29 مارچ 2017
یونانی حکومت کے زیر انتظام ملک بدری کی یہ خصوصی پرواز بھی ہینوور ہی سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے پانچ پاکستانی شہریوں کو وطن واپس بھیجا گیا۔ اس پرواز میں اٹھارہ جرمن اہلکار بھی سوار تھے اور فلائٹ کا خرچہ ساڑھے بیالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
25 اپریل 2017
اس روز بھی خصوصی پرواز ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے تین پاکستانی تارکین وطن کو ملک واپس بھیجا گیا۔ ان تارکین وطن کے ساتھ وفاقی جرمن پولیس کے گیارہ اہلکار بھی پاکستان گئے اور پرواز پر خرچہ اڑتیس ہزار یورو آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger
7 جون 2017
جرمن دارالحکومت برلن کے شونے فیلڈ ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی تارکین وطن ملک بدر کیے گئے۔ پرواز میں 37 جرمن اہلکار بھی موجود تھے اور خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Wüstneck
19 جولائی 2017
تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کی اس خصوصی پرواز کا انتظام بھی ایتھنز حکومت نے کیا تھا اور اس کے ذریعے نو پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ہینوور ہی سے اکیس اہلکاروں اور نو تارکین وطن کو پاکستان لے جانے والی اس فلائٹ پر برلن حکومت کے ساڑھے سینتیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
5 ستمبر 2017
آسٹرین حکومت کے زیر انتظام یہ پرواز ہینوور کے ہوائی اڈے سے ایک پاکستانی شہری کو وطن واپس لے گئی جس کے ہمراہ چار جرمن اہلکار بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Willnow
20 ستمبر 2017
اسی ماہ کی بیس تاریخ کو ہینوور ہی سے ایک خصوصی پرواز گیارہ تارکین وطن کو واپس پاکستان لے گئی اور ان کے ہمراہ بیس جرمن اہلکار بھی تھے۔ اس پرواز کے لیے جرمن حکومت نے ساڑھے سینتیس ہزار یور خرچ کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
7 نومبر 2017
اس روز بھی آسٹرین حکومت کے زیر انتظام ایک خصوصی پرواز میں جرمن شہر ہینوور سے پانچ پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ بیس جرمن اہلکار بھی ان کے ساتھ تھے اور پرواز پر خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Balk
6 دسمبر 2017
برلن سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے 22 پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ وفاقی جرمن پولیس کے 83 اہلکار انہیں پاکستان تک پہنچانے گئے۔ پرواز کا انتظام برلن حکومت نے کیا تھا جس پر ڈیڑھ لاکھ یورو خرچ ہوئے۔