اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی مہاجرین کے بحران پر بات چیت کے لیے آج لیبیا روانہ ہو گئے ہیں۔ لیبیا کی حکومت نے امید ظاہر کی ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے پر دونوں ممالک مل کر کوئی لائحہ عمل مرتب کر سکیں گے۔
اشتہار
سالوینی نے ایک فوجی طیارے کے ذریعے لیبیا روانہ ہوتے وقت ایک سیلفی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا،’’ مشن لیبیا، ہم آ رہے ہیں۔‘‘ ماتیو سالوینی نئی اطالوی حکومت کے لیبیا کا دورہ کرنے والے پہلے نمائندے ہوں گے۔
اتوار کے روز سالوینی نے بحیرہ روم میں مہاجرین کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں کرنے والی غیر ملکی فلاحی تنظیموں سے کہا تھا کہ شمالی افریقی ساحل پر مہاجرین کو ریسکیو کرنا بند کریں۔ دوسری جانب ایک امدادی گروپ کا کہنا تھا کہ ان پانیوں میں مختلف کشتیوں پر سوار قریب ایک ہزار مہاجرین خطرے میں ہیں۔
اطالوی وزیر داخلہ نے مزید کہا،’’لیبیا کے حکام کو اُن کا کام کرنے دیں جیسا کہ وہ کچھ عرصے سے کر بھی رہے ہیں۔ یعنی مہاجرین کو بچانے سے لے کر انہیں واپس اُن کے ملکوں میں پہنچانے تک کا کام۔ حریص این جی اوز کے امدادی جہازوں کو اس کام میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہیے۔‘‘
اطالوی اخبار ’لا ریپبلکا‘ کی آج کی اشاعت میں لیبیا کے نائب وزیر اعظم احمد معتیق کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے۔ اس انٹرویو میں معتیق نے امید ظاہر کی کہ لیبیا اور اٹلی کی حکومتیں مہاجرین کے معاملے پر مل کر کام کر سکیں گی۔
معتیق کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی آمد خود اُن کے لیے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے لیبیا اور اٹلی کا مل کر کام کرنا بے حد ضروری ہے۔ لیبیا کے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا،’’ مہاجرین کو لیبیا لانے والے انسانی اسمگلر ہمارے نزدیک مجرم گروہ ہیں جو ملکی صورت حال کو معمول پر لانے کی حکومتی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔‘‘ احمد معتیق نے ’لا ریپبلیکا‘ کو انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ تمام یورپ کو افریقی ممالک سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ روکنے کے لیے تعمیری اقدامات کرنے چاہییں۔
اطالوی وزیر داخلہ نہ صرف ملک میں مہاجرین مخالف جماعت کے سربراہ ہیں بلکہ ملک کے نائب وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ مہاجرین کی قبولیت کے حوالے سے سالوینی غیر لچک دار اور سخت موقف رکھتے ہیں۔
ص ح / ع ا / اے ایف پی
سمندروں میں پناہ گزینوں کی تلاش اور سلامتی کی کوششیں
غیر سرکاری تنظیم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہے۔ ان کا جہاز ’’ ڈگنٹی ون‘‘ بھی اب تک کئی ہزار افراد کو ڈوبنے سے بچا چکا ہے۔ ان کارروائیوں کی تصاویر
تصویر: DW/K. Zurutuza
ہر لمحہ تیار
فینیکس اور آرگوس کی طرح ڈگنٹی ون بھی ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ایم ایس ایف‘ کے اس بحری بیڑے کا کا حصہ ہے، جو 2015ء کے دوران بحیرہ روم میں گشت کر رہا ہے۔ پچاس میٹر لمبا یہ جہاز پانچ ہزار سے زائد افراد کو محفوظ طریقے سے خشکی پر پہنچا چکا ہے۔ یہ تینوں جہاز اب تک سترہ ہزار افراد کو لہروں کی نذر ہونے بچا چکے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سمندر میں در بہ در
ان چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم پار کرنے کی قمیت پانچ سو یورو تک ہوتی ہے۔ بظاہر نا توا دکھائی دینے والی ان کشتیوں پر اسمگلرز کی بڑی بڑی کشیتوں سے زیادہ بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ سیکنڈ آفیسر ڈیوڈ برادوس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’ایسی کشتیاں ڈوبتی نہیں لیکن بڑی کشتیاں اکثر غرق ہو جاتی ہیں اور مسافر ان میں پھنس جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/K. Zurutuza
ہم کامیاب ہو گئے
’ڈگنٹی ون‘ پر سوار زیادہ تر مہاجرین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لیبیا میں انسانی اسمگلروں نے بتایا تھا کہ انہیں ایک جہاز محفوظ طریقے سے اٹلی لے جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس سال اب تک تین لاکھ سے زائد افراد سمندر کے راستے یورپ پہنچنے کا یہ پُر خطر سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین اور بچے پہلے
مہاجرین کی کشتیوں میں سب سے پہلے خواتین اور بچوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ کسی بھی کشتی پر سوار افراد کا دس سے پندرہ فیصد تک ہوتا ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق اکثر کشتیوں پر تو حاملہ خواتین بھی سوار ہوتی ہیں یا نوزائیدہ بچے ان کی گود میں ہوتے ہیں۔ ان خواتین کو خصوصی توجہ اور طبی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرشے پر افریقہ
بلقان کے ذریعے یورپ پہنچنے والوں کی نسبت لیبیا سے بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی خواہش رکھنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہوتا ہے۔ لیبیا سب صحارہ ممالک کے اُن مہاجرین کا مسکن بن چکا ہے، جو یورپ آنا چاہتے ہیں۔ اس دوران بہت سے افریقیوں کے ساتھ بد سلوکی اور انہیں قتل کر دینے تک کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
غلاموں کی تجارت
سینیگال سے تعلق رکھنے والے امین جابی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ’’لیبیا میں ایک حراستی مرکز میں بند کرنے کے بعد وہاں موجود محافظوں نے مجھے ایک موبائل فون دیا اور کہا کہ میں اپنے اہل خانہ سے بات کروں۔ اور اگر انہوں نے تاوان ادا نہ کیا تو مجھے مار دیا جائے گا۔ مجھے تو چھوڑ دیا گیا لیکن جو لوگ رقم ادا نہیں کر پاتے انہیں غلام بنا کر تعمیراتی کمپنیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنے خواب کا اختتام
متعدد خواتین نے بتایا کہ انہیں لیبیا میں قائم بدنام زمانہ حراستی مراکز میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا عملہ نفسیاتی اور طبی سہولیات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ جہاز پر ہی ایڈز کا ٹیسٹ بھی کرتا ہے۔ اس تنظیم کی لورا پاسکیرو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ان میں سے زیادہ تر خواتین صدمے کا شکار ہوتی ہیں اور جو بات کرنے کے قابل ہوتی ہیں وہ صرف بھیانک واقعات ہی بیان کرتی ہیں‘‘۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بے خوابی
نائجیریا سے تعلق رکھنے والی ایولین نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی:’’مجھے طرابلس کے پاس پانچ ملسح افراد نے پکڑا اور وہ مجھے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن وہ میرے ایام ماہواری تھے۔ یہ دیکھ کر وہ غصے میں آ گئےاور مجھے اتنا مارا کے میں بے ہوش ہو گئی۔ میرے شوہر نے یہ سارے اخراجات ادا کیے ہیں اور یہاں اٹلی میں اس کا انتظار کر رہی ہوں‘‘۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
’ڈگنٹی ون‘ سے اٹلی منتقلی
’ ڈگنٹی ون‘ گنجائش کے حوالے سے چھوٹا ہے اور اس کی رفتار بھی قدرے کم ہے۔ اس وجہ سے یہ زیادہ تر لیبیا کے ساحلوں کے قریب قائم کیے جانے والے’’ریسکیو زون‘‘ میں ہی موجود رہتا ہے۔ اس پر سوار پناہ گزینوں کو بڑی کشتیوں کے ذریعے اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جو زیادہ تر اطالوی جزیرے سیسلی یا ریجیو کالابریا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہت زیادہ توقعات
ساحل پر پہنچنے کے بعد کیا ہو گا؟ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اسے نظر انداز کرتی ہے۔ انہیں بعد میں شمالی اٹلی پہنچایا جاتا ہے، جہاں ایک ماہ تک ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بہت سے کام تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ وہ آبائی ممالک میں موجود اپنے اہل خانہ کو پیسے بھیجنا چاہتے ہیں۔ اٹلی میں روزگار تلاش کرنا بہت مشکل ہے اور اس وجہ سے بہت سوں کو تو زندہ رہنے کے لیے بھیک تک مانگنا پڑتی ہے۔