سن 2016ء کی صدارتی انتخابی مہم کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی اور وسطی امریکی ممالک سے سینکڑوں کی تعداد میں امریکا کا رخ کرنے والے تارکین وطن کے معاملے کو وسط مدتی انتخابات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اشتہار
منگل کے روز ٹوئٹر پر اپنے 55 ملین فالورز کو مخاطب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، ’’وسط مدتی انتخابات کو یاد رکھیے۔‘‘
منگل کو ٹرمپ نے امریکا کی جانب گام زن مہاجرین کے اس بہت بڑے کارروان سے متعلق یکے بعد دیگرے متعدد ٹوئٹر پیغامات جاری کیے۔ مہاجرین کا کارواں میکسیکو کے راستے امریکا کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ ہزاروں افراد وسطی اور جنوبی امریکا کے ان ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں بھوک، تشدد اور دیگر مسائل کی وجہ سے یہ سخت ترین موسمی حالات کے باوجود امریکا کی جنوبی سرحد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
امریکی صدر اس سے قبل دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر یہ تارکین وطن امریکی سرحد کے قریب آئے، تو امریکا میکسیکو کے ساتھ اپنی سرحد بند کرنے کے علاوہ وہاں فوج بھی تعینات کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ ان مہاجرین کا تعلق جن ممالک سے ہے، ان کی مالی امداد بھی بند کر دی جائے گی۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے ٹرمپ نے یہ الزام تک لگا دیا کہ تارکین وطن کے اس کارواں میں جرائم پیشہ افراد کے علاوہ ’مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے‘ افراد کا گروپ بھی موجود ہے۔ صدر ٹرمپ ڈیموکریٹس اور امریکی عدلیہ پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہوں نے سخت امیگریشن پالیسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں، جس کی بنا پر یہ مہاجرین امریکا کا رخ کر رہے ہیں۔ ان تارکین وطن میں سے زیادہ تر کا تعلق ایل سلواڈور، گوئٹے مالا اور ہنڈوراس سے ہے۔
وِلسن سینٹر کی لاطینی امریکی پروگرام کی ڈائریکٹر سنتھیا ایرسن کے مطابق، ’’عین وسط مدتی انتخابات سے قبل ہزاروں تارکین وطن کا یوں امریکا کی جانب بڑھنا، صدر ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہو سکتا ہے۔‘‘
ٹرمپ دنيا بھر ميں کس کس سے ناراضی مول لیے بيٹھے ہيں!
مسائل داخلی ہوں يا بين الاقوامی امريکی صدر ٹرمپ کے ان سے نمٹنے کے انداز کو متنازعہ خیال کیا جاتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ روايتی حريف روس اور چين ہی نہيں بلکہ يورپی يونين جيسے قريبی اتحادی بھی ٹرمپ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kamm
پاکستان اور امريکا، ايک پيچيدہ رشتہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز پر اپنی ٹوئيٹس ميں پاکستان پر شديد تنقيد کی۔ انتظاميہ چاہتی ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک ميں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف زيادہ موثر کارروائی کرے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے حلیفوں پاکستان اور امريکا کے بيچ فاصلے بڑھتے جا رہے ہيں۔ ستمبر 2018ء ميں امريکی وزير خارجہ کے دورے سے بھی زيادہ فرق نہيں پڑا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
اقتصادی جنگ ميں چين اور امريکا ميں مقابل
روسی ہتھياروں کی خريداری پر امريکا نے چينی فوج پر ستمبر 2018ء ميں تازہ پابندياں عائد کيں۔ جواباً چين نے دھمکی دی کہ پابندياں خنم کی جائيں يا پھر امريکا اس کا خميازہ بھگتنے کے ليے تيار رہے۔ چين اور امريکا کے مابين يہ واحد تنازعہ نہيں، دنيا کی ان دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ دونوں ممالک ايک دوسرے کی درآمدات پر اضافی محصولات عائد کرتے آئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/S. Shaver
روس کے ساتھ بھی چپقلش
ادھر روس نے کہا ہے کہ ’امريکا آگ سے کھيل رہا ہے‘ اور اس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ يہ بيان روس کے خلاف امريکی پابنديوں کے تناظر ميں سامنے آيا۔ امريکا اور روس کے مابين ان دنوں شام، يوکرائن، امريکی صدارتی انتخابات ميں مبينہ مداخلت، سائبر جنگ اور کئی ديگر اہم امور پر سنگين نوعيت کے اختلافات پائے جاتے ہيں۔ کئی ماہرين کے خیال میں اس وقت ’ايک نئی سرد جنگ‘ جاری ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے مابين تنازعے ميں بھی ٹرمپ کے کردار پر سواليہ نشان لگايا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اواخر ميں جب ٹرمپ انتظاميہ نے يروشلم کو اسرائيل کا دارالحکومت تسليم کيا، تو اس کا عالمی سطح پر رد عمل سامنے آيا اور خطہ اس کے نتائج آج تک بھگت رہا ہے۔ يورپی رياستيں اس پرانے مسئلے کے ليے دو رياستی حل پر زور ديتی ہيں، ليکن ٹرمپ کے دور ميں دو رياستی حل کی اميد تقريباً ختم ہو گئی ہے۔
تصویر: Imago/ZumaPress
اتحاديوں ميں بڑھتے ہوئے فاصلے
ٹرمپ کے دور ميں واشنگٹن اور يورپی يونين کے تعلقات بھی کافی حد تک بگڑ چکے ہيں۔ معاملہ چاہے تجارت کا ہو يا ايران کے خلاف پابنديوں کی بحالی کا، برسلز اور واشنگٹن کے نقطہ نظر مختلف ہوتے ہيں۔ امريکی صدر مہاجرين کے بحران، بريگزٹ، يورپی يونين ميں سلامتی کی صورتحال، يورپ ميں دائيں بازو کی قوتوں ميں اضافہ و مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے بجٹ جيسے معاملات پر يورپی قيادت کو کافی سخت تنقيد کا نشانہ بنا چکے ہيں۔
جی سيون بھی تنازعے کی زد ميں
اس سال جون ميں کينيڈا ميں منعقد ہونے والی جی سيون سمٹ تنقيد، متنازعہ بيانات اور الزام تراشی کا مرکز بنی رہی۔ ٹرمپ نے اس اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلاميے پر دستخط کرنے سے انکار کر ديا، جس پر تقريباً تمام ہی اتحادی ممالک کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے اس رويے کی مذمت کی۔ کيوبک ميں ہونے والی جی سيون سمٹ کے بعد ميزبان ملک کے وزير اعظم جسٹن ٹروڈو اور ٹرمپ کے مابين لفظوں کی ايک جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Prime Minister's Office/A. Scotti
6 تصاویر1 | 6
ایرسن نے کہا کہ سن 2016ء میں ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں فتح کے درپردہ ان کی انتخابی مہم میں مہاجرین مخالف بیانات کا خاصا عمل دخل تھا: ’’میرے خیال میں یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ اس معاملے پر ٹوئٹر پر بات کر رہے ہیں اور ان تارکین وطن کے حوالے سے انتہائی سخت بیانات دے رہے ہیں۔ وہ اپنے حامیوں سے مدد کا کہہ رہے ہیں اور خوف کو استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے آئندہ کچھ روز میں مسلسل بیانات سامنے آ سکتے ہیں اور خصوصاﹰ ان تارکین وطن سے متعلق ایسے جملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جن میں کہا جائے گا کہ یہ تشدد پسند اور جرائم پیشہ افراد ہیں، حالانکہ حالات اور شواہد اس کے بالکل برعکس ہیں۔