مہاجرین کے بحران کے باعث پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے میرکل کی سیاسی پارٹی ’سی ڈی یو‘ اور باویریا میں اس کی ہم خیال ’سی ایس یو‘ میں دراڑیں واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایسے یک طرفہ اقدامات کو مسترد کر دیا ہے کہ کچھ مہاجرین کو ملکی سرحد سے واپس لوٹا دیا جائے۔ یہ مطالبہ میرکل کی باویریا میں ہم خیال سیاسی پارٹی کرسچن سوشل یونین کی طرف سے سامنے آیا ہے، جس کی وجہ سے قدامت پسند اتحاد میں تناؤ کی ایک کیفیت نمایاں ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے دو سوالوں کی مختصر جوابات
سوال : میرکل کے قدامت پسند اتحاد میں اختلافات کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
جواب: مسئلہ ہے مہاجرین کے بحران کا ہی ! اس سے کیسے نمٹا جائے اس پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اور باویریا میں اس کی اتحادی پارٹی ’کرسچن سوشل یونین‘ ابھی تک متفقہ مؤقف اختیار نہیں کر سکی ہیں۔
جرمن صوبہ باویریا ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔ اسے ہم پاکستان کا پنجاب بھی کہہ سکتے ہیں۔ یوں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر جرمنی کے اس صوبے نے وفاق سے اختلاف کیا تو مسئلہ شدید بھی ہو سکتا ہے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
8 تصاویر1 | 8
چانسلر میرکل مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر نہ صرف وفاقی بلکہ یورپی یونین کی سطح پر ایک ٹھوس اور جامع حکمت عملی کی وکلالت کرتی ہیں۔ تاہم باویریا صوبے کی اہم ترین پارٹی سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا ہے کہ مہاجرین سے جڑے مسائل سے نمٹنے کی خاطر فیصلہ سازی کا حق صوبوں کو دیا جائے۔
زیہوفر کا یہ کہنا بھی ہے کہ اگر کسی تارک وطن نے اگر کسی دوسرے یورپی ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا رکھی ہو تو اسے جرمن حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینا چاہیے تاہم انگیلا میرکل اس نکتے کو مسترد کرتی ہیں۔
زیہوفر ہمیشہ سے ہی میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کے بڑے ناقد رہے ہیں لیکن اب معاملہ شدید ہوتا جا رہا ہے۔ سی ایس یو نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر اس حوالے سے اختلافات دور نہ ہوئے تو ان کی پارٹی وسیع تر حکومت سے علیحدگی بھی اختیار کر سکتی ہے، جس کے باعث میرکل کی حکومت ختم بھی ہو سکتی ہے۔
سوال: جرمنی کی وفاقی حکومت کے لیے خطرہ بن جانے والے یہ اختلافات کیا دور ہو سکتے ہیں؟
جواب: باویریا صوبے میں برسر اقتدار سی ایس یو کے ترجمان نے آج جمعے کے دن ہی کہا ہے کہ وہ پارٹی رہنما ان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس معاملے کی وجہ سے قدامت پسندوں کا اتحاد ختم بھی ہو سکتا ہے۔
باویریا میں اکتوبر میں علاقائی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سی ایس یو کی کوشش ہے کہ اس معرکے سے قبل جرمن ووٹرز کا اعتماد بحال کیا جائے اور مہاجرت مخالف دائیں بازو کی پارٹی اے ایف ڈی کی سیاسی پوزیشن کا بہتر طریقے سے مقابلہ کیا جائے۔ اے ایف ڈی مہاجرین کی ملک آمد کے خلاف ہے، اور اسی لیے اس نے مقامی ووٹرز کا اعتماد جیتا ہے۔
ادھر ایسی خبریں بھی موصول ہوئیں کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے منجھے ہوئے سیاستدان اور موجودہ پارلیمانی صدر وولف گانگ شوئبلے سے کہا ہے کہ وہ سی ایس یو اور سی ڈی یو کے مابین اس کشیدگی کو ختم کرانے کی کوشش کریں۔ تاہم سی ڈی یو نے ان خبروں کی تردید کر دی ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوئبلے بھی مہاجرین کی حکومتی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن وہ میرکل کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ شوئبلے سی ایس یو کے اس مطالبے کو بھی جائز سمجھتے ہیں کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پلان ہونا چاہیے۔
جرمن وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل تیسری جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس بحران میں میرکل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے قدامت پسندوں پر زور دیا ہے کہ وہ جلد ہی اس اختلاف کو دور کریں۔ اس پارٹی کے مطابق جرمنی کے تمام تر مسائل کا حل یورپی سطح پر ہی ہونا چاہیے اور ملکی یا علاقائی سطح پر ضوابط طے کرنے سے مہاجرین کے بحران جیسے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔