یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل کے تحت جرمنی نے نئے شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی حامی تو بھر لی ہے لیکن ساتھ ہی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر کی طرف سے اس پیشرفت پر سخت تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان ٹوبیاس پلاٹے نے توقع ظاہر کی ہے کہ چار اپریل بروز پیر کو شامی مہاجرین کا ایک نیا گروہ جرمنی پہنچ جائے گا۔ یکم اپریل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اس گروہ میں ایسے کنبے ہوں گے، جو بچوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اس گروہ میں شامل مہاجرین کی درست تعداد کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانی والی ڈیل کے تحت رواں برس بیس مارچ کے بعد سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی منتقل کیا جائے گا، جس کے بدلے میں یورپی یونین کے رکن ممالک ترکی میں پہلے سے موجود شامی مہاجرین کی آباد کاری کے عمل میں شریک ہوں گے۔ جتنے مہاجرین ترکی واپس روانہ کیے جائیں گے، اتنے ہی مہاجرین ترکی سے یورپی یونین آباد کیے جائیں گے۔
موریا، دنیا کا ’بدترین مہاجر کیمپ‘
موریا بھی انہی رجسٹریشن مراکز میں سے ایک ہے۔ لمبی قطاروں، ابتر حالات اور بنیادی اشیا کی عدم موجودگی کے باعث موریا کو دنیا کا بدترین مہاجر کیمپ قرار جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
حقیقی مہاجر کون ہے؟
لیسبوس پہنچتے ہی مہاجرین کو قومیت کے حوالے سے الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ شامی باشندوں کو ’تارا کیپی کیمپ‘ منتقل کیا جاتا ہے، جہاں زیادہ تر مہاجرین شلیٹر ہاؤسز میں رکھے جاتے ہیں۔ دیگر کو موریا کیمپ رکھا جاتا ہے۔ یہ سابقہ حراستی مرکز یونان کا پہلا ہاٹ سپاٹ رجسڑیشن کیمپ ہے، جہاں اقتصادی مقاصد کی خاطر نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد کیمپوں یا درختوں کے نیچے ہی سوتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بہت زیادہ رش، اہم اشیا کی قلت
اس مقام پر گنجائش سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں۔ اس لیے یہاں تنازعات بھی جنم لیتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارک حاصل کرنے کی قطاروں کو توڑنے پر لڑائی۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس کیمپ میں چار سو دس افراد کی گنجائش ہے جبکہ حقیقت میں وہاں دو تا چار ہزار افراد موجود ہوتے ہیں۔ اس کیمپ میں بنیادی اشیا کی قلت بھی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
خوراک کی کمی
ہالینڈ کے ایک امدادی ادارے کی بانی رومنا برونگرز کے بقول ان کا ادارہ اس کیمپ میں روزانہ ڈیڑھ ہزار افراد کے لیے کھانا پکاتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ وہ بتاتی ہیں کہ روز ہی کئی افراد بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اس خاتون امدادی کارکن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا ادارہ ہرممکن کوشش کر رہا ہے لیکن مسائل زیادہ بڑے اور گھمبیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کوڑے کرکٹ میں زندگی
رومنا برونگرز کا کہنا ہے کہ چھتیس رضاکاروں پر مشتمل ان کا گروہ اس کیمپ میں کوڑا کرکٹ کی صفائی اور بہتر نکاسی آب کی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش میں بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کیمپ میں لوگ کوڑے کرکٹ میں ہی سو جاتے ہیں، ’’اس مقام کو صاف ستھرا رکھنا ناممکن ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ حفظان صحت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے وبائیں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
تحریک کا نہ ہونا
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس ابتر صورتحال کے لیے انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پولیس اہلکار اس کیمپ کے انتظام کی ذمہ دار ہیں لیکن ان میں کچھ کرنے کے تحریک ہی نہیں اور کبھی کبھار تو وہ کام پر آتے ہی نہیں۔ مورلٹ بقول یوں یہاں پہلے سے موجود لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہو پاتی جبکہ مزید لوگ پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پاکستان سے ترکی تک ننگے پاؤں سفر
فیص اللہ (تصویر میں پنک شرٹ میں ملبوس) کے بقول انہوں نے پاکستان سے ترکی تک کا سفر بغیر جوتوں کے ننگے پاؤں ہی طے کیا۔ فیض اللہ کے دوست اسرار احمد (انتہائی دائیں) کے مطابق وہ اس کیمپ میں یونہی سوتے ہیں، بغیر کسی کمبل کے، ’’ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بچے ہماری طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
تعاون نہ ہونے کے برابر
امدادی ادارے ’ایکشن ایڈ‘ سے وابستہ قنسطنطینہ سِٹریکوا کی کوشش ہے کہ موسم سرما سے قبل اس کیمپ میں خواتین کے لیے شیلٹر ہاؤسز کا انتظام ہو جائے لیکن پولیس کی مداخلت کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیمپ کے باہر ایک کنٹینر پڑا ہے، جو رہائش کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم پولیس اسے اس کمیپ میں لانے کی اجازت نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
فیصلہ کون کرے گا؟
بیس سالہ افغان شہری ارشد رحیمی کہتا ہے کہ طالبان کے ایک حملے میں اس کے باپ اور بہن کے کے قتل کے بعد اس کی ماں نے اسے افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کہتا ہے، ’’مجھے طالبان سے خطرہ لاحق ہے لیکن یہاں لوگ کہتے ہیں کہ میں اقتصادی مقاصد کے لیے نقل مکانی کر رہا ہوں۔‘‘ وہ اس الجھن میں سوال کرتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ وہ مہاجر ہے یا نہیں؟
تصویر: DW/D. Cupolo
گوانتانامو بے جیسی صورتحال
لیسبوس میں رضاکاروں کی رابطہ کمیٹی کے سربراہ فریڈ مورلٹ اس مقام کو ایک حراستی کیمپ کے مترادف قرار دیتے ہیں، ’’باڑوں اور خار دار تاروں کے ساتھ یہ گوانتانامو کے حراستی کیمپ جیسا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صرف موسم سرما کی وجہ سے ہی لوگ ہجرت کے عمل کو ترک نہیں کریں گے کیونکہ سردیوں میں سمندر قدرے پرسکون رہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’اللہ کے رحم و کرم پر اکیلا‘
افغان شہری یزمان یوسفی کے بقول ، ’’جب میں کشتی پر سوار ہو کر یہاں آ رہا تھا تو سمندر بیچ میں نے محسوس کیا کہ میں اللہ کے رحم وکرم پر ہوں۔‘‘ ایران میں بطور پناہ گزین زندگی بسر کر چکنے والے یوسفی نے مزید کہا کہ وہ اب بھی خود کو خدا کے ساتھ تنہا ہی محسوس کرتا ہے، ’’جیسے میں نے اس کشتی میں محسوس کیا تھا کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں بچ جاؤں گا۔ اس کیمپ میں بھی زندگی بسر کرتے ہوئے بھی میری یہی سوچ ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
گزشتہ برس کے دوران جرمنی مہاجرین کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک رہا تھا۔ ایک برس کے دوران یورپ کی اس اہم ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کی مجموعی تعداد 1.1 ملین رہی، جن میں سے چالیس فیصد شامی مہاجرین تھے۔
جرمن چانسلر کو اپنی مہاجرت کی پالیسی پر پہلے ہی سیاسی اور عوامی دباؤ کا سامنا تھا لیکن اب نئے مہاجرین کو جرمنی آباد کرنے کے اعلان پر دائیں بازو کے گروہوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم میرکل کا کہنا ہے کہ یورپ کو درپیش مہاجرین کا بحران ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی متفقہ طور پر نکالا جانا چاہیے۔ وہ ابھی تک اپنی اس پالیسی کا کامیابی سے دفاع کر رہی ہیں۔
مہاجرین سے متعلق یونان میں ‘نیا قانون‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپی رجسٹریشن کروائیں ورنہ انہیں واپس ترکی روانہ کر دیا جائے گا۔ یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل کے تحت ایتھنز حکومت ایسے مہاجرین کو بھی واپس ترکی روانہ کر دے گی، جن کی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کر دیا جائے گا۔
’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘
02:29
یکم اپریل کو یونانی پارلیمان نے ایک اہم قانون کی بھی منظوری دے دی، جس کے تحت اس ڈیل پر عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔ تاہم ایسے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ترکی روانہ کیے جانے والے مہاجرین کے ساتھ ’برا سلوک‘ کیا جا سکتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ایسے مہاجرین کو واپس شام بھی روانہ کیا جا سکتا ہے۔
تاہم ترک حکومت نے واضح کیا ہے کہ ان مہاجرین کے تمام حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ سن 2011 سے ترکی 2.7 ملین شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔ خانہ جنگی سے فرار ہو کر یہ مہاجرین پہلے ترکی پہنچتے ہیں اور بعدازاں یہ یونان کے راستے دیگر یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔