1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا نیا گروہ جرمنی جانے کے لیے تیار

عاطف بلوچ2 اپریل 2016

یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل کے تحت جرمنی نے نئے شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی حامی تو بھر لی ہے لیکن ساتھ ہی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر کی طرف سے اس پیشرفت پر سخت تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

Griechenland Flüchtlinge auf Chios
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/O. Panagiotou

جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان ٹوبیاس پلاٹے نے توقع ظاہر کی ہے کہ چار اپریل بروز پیر کو شامی مہاجرین کا ایک نیا گروہ جرمنی پہنچ جائے گا۔ یکم اپریل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اس گروہ میں ایسے کنبے ہوں گے، جو بچوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اس گروہ میں شامل مہاجرین کی درست تعداد کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانی والی ڈیل کے تحت رواں برس بیس مارچ کے بعد سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی منتقل کیا جائے گا، جس کے بدلے میں یورپی یونین کے رکن ممالک ترکی میں پہلے سے موجود شامی مہاجرین کی آباد کاری کے عمل میں شریک ہوں گے۔ جتنے مہاجرین ترکی واپس روانہ کیے جائیں گے، اتنے ہی مہاجرین ترکی سے یورپی یونین آباد کیے جائیں گے۔

گزشتہ برس کے دوران جرمنی مہاجرین کو پناہ دینے والا سب سے بڑا ملک رہا تھا۔ ایک برس کے دوران یورپ کی اس اہم ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کی مجموعی تعداد 1.1 ملین رہی، جن میں سے چالیس فیصد شامی مہاجرین تھے۔

جرمن چانسلر کو اپنی مہاجرت کی پالیسی پر پہلے ہی سیاسی اور عوامی دباؤ کا سامنا تھا لیکن اب نئے مہاجرین کو جرمنی آباد کرنے کے اعلان پر دائیں بازو کے گروہوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم میرکل کا کہنا ہے کہ یورپ کو درپیش مہاجرین کا بحران ایک مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی متفقہ طور پر نکالا جانا چاہیے۔ وہ ابھی تک اپنی اس پالیسی کا کامیابی سے دفاع کر رہی ہیں۔

مہاجرین سے متعلق یونان میں ‘نیا قانون‘

ترکی سے یونان پہنچنے والے مہاجرین سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپی رجسٹریشن کروائیں ورنہ انہیں واپس ترکی روانہ کر دیا جائے گا۔ یورپی یونین اور ترکی کی ڈیل کے تحت ایتھنز حکومت ایسے مہاجرین کو بھی واپس ترکی روانہ کر دے گی، جن کی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کر دیا جائے گا۔

’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘

02:29

This browser does not support the video element.

یکم اپریل کو یونانی پارلیمان نے ایک اہم قانون کی بھی منظوری دے دی، جس کے تحت اس ڈیل پر عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔ تاہم ایسے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ترکی روانہ کیے جانے والے مہاجرین کے ساتھ ’برا سلوک‘ کیا جا سکتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ ایسے مہاجرین کو واپس شام بھی روانہ کیا جا سکتا ہے۔

تاہم ترک حکومت نے واضح کیا ہے کہ ان مہاجرین کے تمام حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ سن 2011 سے ترکی 2.7 ملین شامی مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔ خانہ جنگی سے فرار ہو کر یہ مہاجرین پہلے ترکی پہنچتے ہیں اور بعدازاں یہ یونان کے راستے دیگر یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں