سن 2015ء میں ہزاروں مہاجرین کو بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے سے بچانے والے کوسٹ گارڈ لیفٹیننٹ کیریا کوس پاپاڈوپولوس دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں۔ انہیں پناہ گزینوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ’ہیرو آف ایجیئن‘ کہا جاتا تھا۔
اشتہار
لیفٹینیٹ کیریا کوس پاپاڈوپولوس کی عمر چوالیس برس تھی۔ یونان میں سمندری امور کے وزیر فوتیس کوویلیس نے پاپا ڈوپولوس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا، ’’لیسبوس کے جزیرے پر پیدا ہونے اور پرورش پانے والے پاپاڈوپولوس نے یورپ کو بتا دیا کہ یونان میں انسانیت، برابری، یکجہتی اور امن جیسی اقدار کی کیا اہمیت ہے۔انہوں نے انسانی زندگی کی اہمیت کو دنیا بھر کے سامنے اجاگر کیا۔‘‘
پاپاڈوپولوس سن 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے دوران اپنے بحری جہاز کو لے سمندر میں نکل جاتے اور ربڑ کی ناقص کشتیوں کے ڈوبنے پر اُن تارکین وطن کی زندگیاں بچایا کرتے تھے جو ترکی سے یونان کے درمیان مختصر مگر خطرناک سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
لیسبوس کے مئیر سائپروس گیلینوس نے ٹویٹر پر لکھا،’’ آج لیسبوس غریب ہو گیا۔‘‘
سن 2015 میں یونانی جزیرہ لیسبوس ترکی سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کے لیے داخلے کا ترجیحی مقام تھا۔ لیکن اس سمندری راستے سے یونانی جزائر تک پہنچنے کے سفر میں کئی سو افراد ڈوب کر ہلاک بھی ہوئے اور بہت سے لاپتہ ہو گئے۔
ایسے میں یونانی کوسٹ گارڈ نے ماہی گیروں کی مدد سے ہزاروں ڈوبنے والے مہاجرین کو بچانے کے لیے امدادی کارروائیاں کیں۔ اس حوالے سے پاپاڈوپولوس کو یونانی میڈیا میں ’ہیرو آف ایجیئن‘ اور ’ مہاجرین کا محافظ فرشتہ‘ لکھا جاتا تھا۔
سن 2016 میں آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ایک مختصر دستاویزی فلم ’4.1 مائیلز‘ میں پاپاڈوپولوس نے کہا تھا،’’ایک طرح سے میں بھی خوفزدہ ہوں۔ میں انہیں بچا لیے جانے کی یقین دہانی نہیں کرا سکتا۔ جب میں اُن کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں تو وہاں جنگ کی یادیں ہیں۔ وہ جنگ سے بھاگ کر سمندر کا سفر کرتے ہیں۔ اور ایک پر امن ملک کے سمندر میں ایک دوسرے کو موت کے منہ میں جاتے دیکھتے ہیں۔‘‘
ص ح / ا ب ا / نیوز ایجنسی
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔