’مہاجرین کو افریقی بندرگاہوں پر اتارنے کی تجویز قبول نہیں‘
19 اکتوبر 2018
طرابلس حکومت کے مطابق لیبیا اور اس کے شمالی افریقی ممالک یورپی یونین کے اس منصوبے کے مخالف ہیں جس میں یورپ کی طرف مہاجرین کا بہاؤ روکنے کے لیے انہیں علاقائی بندرگاہوں پر اتارا جانا تجویز کیا گیا ہے۔
اشتہار
یہ بات لیبیا کے وزیر خارجہ محمد الطاہر سیالہ نے آج جمعے کے روز آسٹریا کے ایک اخبار میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں بتائی ہے۔ رواں ہفتے ویانا کے سرکاری دورے کے موقع پر ’دی پریسے‘ اخبار سے بات کرتے ہوئے الطاہر سیالہ نے کہا،’’ تمام شمالی افریقی ممالک اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں، ان میں تیونس، الجزائر، مراکش اور لیبیا شامل ہیں۔ تو پھر یورپی یونین کن ممالک کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا چاہتی ہے؟‘‘
رواں برس جون میں یورپی یونین کے رکن ممالک نے مہاجرین کی درجہ بندی کرنے کے لیے یورپ سے باہر ایسے مراکز بنانے کے خیال کی منظوری دی تھی جس کے تحت یورپ آنے کا ارادہ رکھنے والے تارکین وطن کو وہیں رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جانا تھا کہ کون سے مہاجرین در حقیقت تحفظ کے حق دار ہیں اور کون سے افراد اقتصادی بنیادوں پر ترک وطن کر رہے ہیں۔
یورپی یونین نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے ان مہاجرین کے جہازوں کو ان ملکوں کی بندرگاہوں پر ہی اتارنے کے اس منصوبے کے سلسلے میں عالمی ادارہ برائے مہاجرت اور مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر سے بھی مشاورت کی جائے۔
لیبیا کے وزیر خارجہ محمد الطاہر سیالہ کے مطابق لیبیا کے حراستی مراکز میں قریب تیس ہزار غیر قانونی تارکین وطن مقیم ہیں جب کہ ان مراکز سے باہر ساڑھے سات لاکھ تارکین وطن رہائش پذیر ہیں۔
سیالہ نے اپنے انٹرویو میں کہا،’’ لیبیا مہاجرین کو اُن کے آبائی ممالک واپس بھیجنے کے لیے یورپی یونین کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے ان میں سے بعض ممالک نے جن میں زیادہ تعداد مغربی افریقی ممالک کی ہے، اپنے شہریوں کو واپس لینے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘
سیالہ کے مطابق مہاجرین کے بہاؤ کو کم کرنے کی غرض سے اپنی جنوبی سرحد کو مضبوط بنانے کے لیے لیبیا نے چاڈ ، سوڈان اور نائجیریا کے ساتھ بھی ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
مہاجرین کی اسمگلنگ کی روک تھام اور ایک نئے یورپی افریقی اتحاد کی تشکیل کی لیے آئندہ برس فروری میں عرب رہنما اور یورپی یونین مصر میں ہونے والی ایک سمٹ میں ملاقات کر رہے ہیں۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
سمندر میں ڈوبتے ابھرتے تارکینِ وطن
گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں چالیس ہزار تارکینِ وطن کو ساحلی پولیس نے نہیں بلکہ اُن تجارتی بحری جہازوں نے بچایا، جو یورپی یونین کا امدادی مشن مارے نوسٹرم ختم ہونے کے بعد سے باقاعدہ تلاش کر کے تارکینِ وطن کی جانیں بچاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
شکر ہے، بچ گئے
ربڑ کی یہ کشتی اور اِس میں سوار تارکینِ وطن عنقریب ’او او سی جیگوار‘ نامی اس پرائیویٹ بحری تجارتی جہاز کی حفاظت میں ہوں گے، جو عام طور پر بحیرہٴ روم میں واقع تیل کے کنووں تک اَشیائے ضرورت پہنچاتا ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
طوفانی لہروں میں سہارا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’جیگوار‘ جیسے بحری جہازوں کو سمندر کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کو بچانا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے امدادی مشن ’ٹریٹون‘ کے تحت محض چند ایک امدادی بحری جہاز ہی اس کام میں مصروف ہیں اور وہ بھی اٹلی کے ساحلوں سے زیادہ سے زیادہ چھپن کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
ایک اور بے سہارا کشتی
جرمن جہاز راں کرسٹوفر اوپیلوک کے دو بحری جہاز، جو عام طور پر سمندر میں بنے آئل پلیٹ فارمز کو اَشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک پندرہ سو تارکینِ وطن کی جانیں بچا چکے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی تھے، جنہیں وہ نہ بچا سکے۔ ’جیگوار‘ نامی جہاز کا اس الٹی ہوئی کشتی سے سامنا اپریل کے وسط میں ہوا تھا۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
اب سامان میں کمبل بھی
اوپیلوک کے بحری جہاز عام طور پر مالٹا میں لنگر اندز ہوتے ہیں اور وہاں سے لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع آئل پلیٹ فارمز کو ہر قسم کا مطلوبہ سامان پہنچاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جہاز اپنے ساتھ اضافی طور پر اَشیائے خوراک، کمبل اور ادویات بھی رکھنے لگے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
سلامتی کی منزل ابھی دور
’جیگوار‘ کے عرشے پر پہنچ جانے کا مطلب بھی مکمل سلامتی کی منزل تک پہنچ جانا نہیں ہوتا۔ جہاز راں اوپیلوک کے مطابق ’بہت سے تارکینِ وطن، جنہیں ہم پانی سے نکالتے ہیں، اُن کے جسم سرد پانی کی وجہ سے اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ عرشے پر پہنچنے کے چند منٹ کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
غرقابی سے کچھ پہلے
تجارتی بحری جہازوں کے کپتان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ سمندر میں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کریں اور اُن کی جان بچائیں۔ ایسے میں تارکینِ وطن کو لانے والے بحری جہاز جان بوجھ کر اُن روٹس پر سفر کرتے ہیں، جنہیں تجارتی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ تارکینِ وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی بس غرق ہونے ہی والی ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
امدادی مشن میں ایک ایک لمحہ قیمتی
... اور کشتی غرق ہونے کے چند ہی لمحے بعد تارکینِ وطن کھلے سمندر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ’جیگوار‘ بحری جہاز ڈوبتے ہوئے ان انسانوں کی جانیں بچانے اور اٹلی کی ساحلی پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی ایک امدادی مشن مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔