مہاجرین کو بچانے والے جہاز ایکوئیریس کو مشکلات کا سامنا
29 ستمبر 2018
بحیرہ روم میں سویلین بحری جہازوں کو مہاجرین بچانے کے عمل میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سمندر میں مہاجرین کو بچانے والا آخری بحری جہاز ایکوئیریس بھی اب مشکلات کے بھنور میں پھنس کر رہ گیا ہے۔
اشتہار
اس وقت بحیرہ روم میں انسانی ہمدردی کے تحت کمزور کشتیوں پر یورپ پہنچنے والے افریقی مہاجرین کو بچانے والا آخری بحری جہاز ایکوئیریس ہے۔ اس جہاز کے عملے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اب اُسے دوسری مہاجرین مخالف کشتیوں کی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ جہاز نے ان کشتیوں کی مہم کو غیرقانونی قرار ضرور دیا ہے لیکن یہ نہیں واضح کیا کہ یہ مہاجرین مخالف کشتیاں کس کی ملکیت ہیں۔ بظاہر یہ مختلف یورپی ممالک کے کوسٹ گارڈز کی ہو سکتی ہیں۔
ایکوئیریس نامی بحری جہاز کے پاس چھپن غیر ملکی تارکین وطن ہیں لیکن وہ انہیں کسی بھی بندرگاہ پر پہنچانے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔ ایکوئیریس ان پناہ گزینوں کو بین الاقوامی سمندری میں مالٹا کے کوسٹ گارڈز کی تحویل دینے کی کوشش میں ہے لیکن کوسٹ گارڈز نے ایکوئیریس کو مہاجرین کی منتقلی یا کسی بھی بندرگاہ پہنچنے سے روک دیا ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مالٹا کی ساحل پر کھڑی ایسی دوسری کئی کشتیاں ہیں، جو کھلے سمندر میں غیرقانونی تارکین وطن کو بچانے کی کوشش میں مصروف تھیں لیکن اب انہیں بندرگاہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ کشتیاں اب مالٹا سے نکلنے کی قانونی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح جرمن غیر سرکاری تنظیم سی واچ کا بحری جہاز سی واچ تھری بھی مالٹا کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہے اور اُسے بھی حکام نے بندرگاہ چھوڑنے سے روک رکھا ہے۔ جرمن غیرسرکاری تنظیم کا موقف ہے کہ مالٹا کے حکام نے اُسے کے بحری جہاز کو غیرقانونی طور پر روک رکھا ہے۔
سی واچ تھری نامی بحری جہاز رواں برس جون سے لنگر انداز ہے۔ ایسے ہی دو اور بحری جہاز بھی مالٹا حکام کی اجازت کے منتظر ہیں۔ سی واچ نامی جرمن غیرسرکاری تنظیم کے مہاجرین کو بچانے کے مشن کے سربراہ ٹامینو بوہم کا کہنا ہے کہ وہ مالٹا حکام سے اجازت کے منتظر ہیں اور جیسے ہی اجازت ملتی ہے، وہ اپنی امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ اٹلی میں رواں برس قائم ہونے والی قدامت پسند اور مہاجرین مخالف حکومت کے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی نے بحیرہ روم سے غیر قانونی تارکین وطن کو بچا کر اطالوی سرحدی تک لانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ سالوینی ایسے بحری جہازوں کو ’انسانی اسمگلروں کے بحری جہاز‘ قرار دیتے ہیں۔
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔