1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کو ترک شہریت دی جائے گی، ایردوآن

شمشیر حیدر
7 جنوری 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا ہے شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے قابل اور ہنرمند مہاجرین کو ترک شہریت دی جائے گی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں تین ملین شامی مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔

Türkei  Recep Tayyip Erdogan Ankara
تصویر: picture-alliance/dpa/Y.Bulbul

ہنرمند شامی اور عراقی مہاجرین کو ملکی شہریت دینے کا اعلان ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جمعے کے روز ٹی وی پر نشر کیے جانے والے پیغام میں کیا۔

نشریاتی خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا، ’’ہماری وزارت داخلہ اس منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کے تحت ضروری جانچ پڑتال کے بعد کچھ مہاجرین کو ترک شہریت دی جائے گی۔‘‘

اس بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے ایردوآن نے کہا کہ ان مہاجرین میں، ’’بہت سے  ڈاکٹر، انجینیئر اور وکیل بھی ہیں اور کئی دیگر شعبوں میں قابلیت رکھتے ہیں۔ ہمیں ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔‘‘

ترک صدر کا مزید کہنا تھا باصلاحیت مہاجرین غیر قانونی طور پر چھوٹے موٹے کام کر رہے ہیں لیکن ایسے افراد کو بطور ترک شہری ملازمت حاصل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

ایردوآن کے مطابق انقرہ حکومت ضروری کارروائی کے بعد کسی بھی وقت اس منصوبے پر عمل درآمد کر دے گی تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی یہ بتایا کہ جن مہاجرین کو ملکی شہریت دی جائے گی ان کی تعداد کتنی ہے۔

گزشتہ برس بھی ایردوآن نے ایسے ہی ایک منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ترک عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس منصوبے پر شدید تنقید کی تھی۔ کئی ترک شہریوں کے پیغام غصے سے بھرپور اور اجانب دشمنی پر مشتمل تھے۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی ایردوآن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ شامی مہاجرین کو پناہ دے کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ایردوآن مخالف جماعتوں کے مطابق ترک صدر آئینی اصلاحات کے ذریعے خود کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور مہاجرین کو شہریت دینے جیسے اقدامات ایردوآن کے اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔

انقرہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق تیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین ترکی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے

03:00

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں