مہاجرین کو جرمنی سے اٹلی واپس بھیجا جائے گا، ڈیل جلد
15 جولائی 2018
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے کہا ہے کہ مہاجرین کو واپس اٹلی بھیجنے سے متعلق برلن اور روم حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ جولائی کے آخر تک طے پا جائے گا۔ اٹلی تاہم اس معاہدے سے قبل یورپی سرحدی سکیورٹی کی ڈیل چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
اشتہار
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ برلن اور روم حکومتیں رواں ماہ کے آخر تک ایک معاہدہ طے کر لیں گی، جس کے تحت جرمنی میں موجود تارکین وطن کو دوبارہ اٹلی بھیجا جا سکے گا۔ زیہوفر نے کہا کہ وہ اس بابت خاصے پرامید ہیں کہ تارکین وطن کی اٹلی حوالگی کا معاہدہ ہو جائے گا۔ دوسری جانب زیہوفر کے اطالوی ہم منصب ماتیو سالوینی نے ایسے کسی معاہدے پر کوئی رائے دینے کی بجائے کہا ہے کہ یورپی سرحدوں کا تحفظ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور سب سے پہلے اس بابت اقدامات ہونا چاہییں۔
آسٹریا میں یورپی وزرائے داخلہ کی ملاقات کے موقع پر زیہوفر اور سالوینی کے درمیان ایک غیررسمی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے بعد سالوینی نے کہا کہ ان کے اور زیہوفر کے ’اہداف مشترک‘ ہیں، جن کے تحت ’’اٹلی اور جرمنی دونوں میں تارکین وطن کی آمد میں کمی، اموات میں کمی اور مہاجرین کی تعداد میں کمی ممکن ہو گی۔‘‘
سالوینی نے کہا، ’’تاہم اس حوالے سے اٹلی کوئی ایک بھی تارک وطن قبول کرنے سے قبل، چاہتا ہے کہ یورپ اپنی بیرونی سرحدوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔ جب ایسا کوئی اقدام ہو جائے گا، تو ہم دیگر امور پر بھی بات کر پائیں گے۔‘‘
انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اطالوی وزیردخلہ تارکین وطن سے متعلق اپنے سخت اور متنازعہ بیانات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ اس سے قبل وہ تارکین وطن کےلیے ’اسمگلرز، غلام رکھنے والے اور دہشت گرد‘ تک کے الفاظ کا استعمال کر چکے ہیں۔
مہاجرين اور اين جی اوز کے ساتھ يکجہتی، جرمن شہری سڑکوں پر
ہزاروں کی تعداد ميں جرمن شہريوں نے بحيرہ روم ميں مہاجرين کو ريسکيو کرنے والی غير سرکاری تنظيموں کے حق ميں مظاہرے کيے ہيں۔ ايسی تنظيميں ان دنوں سياسی دباؤ کا شکار ہيں اور ان کی سرگرميوں کو روک ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
برلن ميں ہزارہا افراد سراپا احتجاج
غير سرکاری تنظيموں کی مہاجرين و تارکين وطن کو ريسکيو کرنے سے متعلق سرگرميوں کو مجرمانہ فعل قرار ديے جانے پر جرمن دارالحکومت برلن سميت ديگر کئی شہروں ميں مظاہرين نے ہفتے کے روز احتجاج کيا۔ برلن کے مظاہرے ميں بارہ ہزار سے زائد افراد شريک تھے۔ علاوہ ازيں ہيمبرگ، بريمن، ميونخ اور اُلم ميں بھی احتجاج کيا گيا۔ مظاہرين نے مہاجرين کے ساتھ يکجہتی کے ليے لائف جيکٹس اٹھا رکھی تھيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
ريسکيو کرنے والوں کے ساتھ يکجہتی
ہيمبرگ کے مظاہرے ميں شريک ايک خاتون ’زے برؤکے‘ کے نام سے سرگرم رضاکاروں کے اتحاد کے ساتھ يکجہتی کے طور پر نارنجی رنگ کی لائف جيکٹس اور ديگر کپڑے لٹکاتے ہوئے ہے۔ نيچے لکھی تحرير کا مطلب ہے، ’سمندر ميں انسانوں کی جانيں بچانا جرم نہيں۔‘ ’زے برؤکے‘ کے لفظی معنی ’سمندر ميں پل‘ ہيں اور يہ اتحاد اس واقعے کے بعد وجود ميں آيا، جس ميں ایک بحری جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہيں دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
سب سے جان ليوا سمندری گزر گاہ
برلن ميں نکالے گئے مظاہرے ميں شريک دو خواتين جن کے پلے کارڈ پر لکھا ہے ’انہيں سمندر ميں بھولنا نہيں‘۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2018ء ميں اس سے پچھلے برسوں کے مقابلے ميں مہاجرين کی بحيرہ روم کے راستے آمد ميں خاطر خواہ کمی تو نوٹ کی گئی ہے تاہم يہ سال کافی جان ليوا بھی ثابت ہوا ہے۔ رواں سال اب تک چودہ سو سے زيادہ افراد بحير روم ميں ڈوب کر ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’بندرگاہيں کھول دو‘
متعدد اين جی اورز پچھلے دنوں کئی يورپی سياستدانوں کی تنقيد کا نشانہ بنتی رہی ہيں۔ چند ممالک نے مہاجرين سے لدے جہازوں کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہ دی يا پھر کافی تاخير سے اجازت دی۔ ايسے يورپی رہنما الزام عائد کرتے ہيں کہ ريسکيو سرگرميوں ميں ملوث غير سرکاری تنظيميں انسانوں کے اسمگلروں کے ہاتھوں ميں کھيل رہی ہيں۔ اين جی اوز کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنا کام نہ کريں تو کئی انسانی جانيں ضائع ہو سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
جرمن حکومت کی پاليسيوں پر برہمی
مظاہرے ميں شريک ايک شخص نے ايک تختی اٹھا رکھی ہے جس پر لکھا ہے، ’زيہوفر کی جگہ زیبرؤکے۔‘ يہ جرمن وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی پناہ گزينوں کے حوالے سے سخت پاليسی پر ايک طنزيہ جملہ ہے۔ زيہوفر کے اسی موضوع پر جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے ساتھ اختلافات نے وفاقی حکومت کو بھی کافی پريشان کر رکھا ہے۔ پچھلے دنوں حکومت کو دوبارہ ايک بحران کا سامنا تھا جو بظاہر فی الحال ٹل گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
’يورپ کی سرحديں بند رکھنے کی ذہنيت‘
جرمنی ميں ہفتہ سات جولائی کے روز نکالے گئے ان مظاہروں ميں شامل بيشتر افراد نے مہاجرين کو محفوظ راستے فراہم کرنے کی ضرورت پر زور ديا۔ انہوں نے ’فورٹريس يورپ‘ يا اس سوچ کی مخالفت کی کہ تمام اطراف سے سرحديں بند کر کے يورپ کو ايک قلعے کی مانند پناہ گزينوں کے ليے بند کر ليا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Carstensen
6 تصاویر1 | 6
دوسری جانب زیہوفر کی جانب سے تارکین وطن سے متعلق سخت موقف کی وجہ سے انہیں بھی جرمنی میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان کی جانب سے ایک تازہ بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی 69 ویں سال گرہ ٹھیک اس روز منا رہے ہیں جب کہ 69 تارکین وطن کو دوبارہ افغانستان بھیجا گیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ واپس بھیجے گئے افغان مہاجرین میں سے ایک 23 سالہ مہاجر جمال ناصر محمودی نے بدھ کو اپنے آبائی وطن پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد خودکشی کر لی تھی۔ محمودی قریب آٹھ سال جرمنی میں مقیم رہا۔ گو کہ وزارت داخلہ کی جانب سے اس مہاجر کی موت پر ’شدید رنج‘ کا اظہار کیا گیا ہے، تاہم وسیع تر حکومتی اتحاد میں شامل جرمنی کی دوسری سب سے بڑی جماعت سی ڈی یو کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ زیہوفر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔