جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو کے سربراہ ہورست زیہوفر کا کہنا ہے کہ ہنگامی صورت میں جرمنی کی سرحدیں بند کر کے مہاجرین کو سرحدوں سے ہی واپس لوٹایا جا سکتا ہے۔
اشتہار
وفاقی جرمن ریاست باویریا میں برسراقتدار کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سربراہ اور صوبائی وزیر اعلیٰ ہورسٹ زیہوفر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں دوبارہ سن 2015 جیسی صورت حال رونما نہیں ہونے دی جا سکتی۔
صوبہ باویریا کے پبلک نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں زیہوفر کا کہنا تھا کہ جرمنی اور یورپ میں مہاجرین کی تعداد کم کرنے کے لیے مہاجرت کی وجوہات کا خاتمہ، یورپ کی بیرونی سرحدوں کی سخت نگرانی اور یورپی یونین کے رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ ان کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یہ طریقے کارگر ثابت نہ ہوئے ’تو جرمنی کی ملکی سرحدیں مہاجرین کے لیے بند کر دی جانا چاہییں‘۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
سن 2015 میں لاکھوں مہاجرین کی جرمنی آمد کا حوالہ دیتے ہوئے زیہوفر نے کہا، ’’ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایسی صورت حال دوبارہ رونما نہیں ہونا چاہیے اور پھر جب وقت آئے تو ہم پھر سے مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھول دیں۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سن 2015 میں مہاجرین کے لیے ملکی سرحدیں کھول دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت جرمنی پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین اور تارکین وطن آسٹریا سے باویریا ہی پہنچے تھے جس کے بعد زیہوفر نے میرکل کے فیصلے پر شدید تنقید کرنا شروع کر دی تھی۔ تاہم زیہوفر کا اب کہنا ہے کہ جرمنی میں مزید مہاجرین کی کسی ممکنہ آمد کے بارے میں ان کی اور چانسلر میرکل کی حکمت عملی اور موقف ایک ہی ہے۔
زیہوفر نے جرمنی میں مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ سالانہ حد دو لاکھ تک مقرر کر دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا جسے میرکل نے ایک سے زائد مرتبہ مسترد کر دیا تھا۔ تاہم گزشتہ ہفتے ہی زیہوفر نے اس مطالبے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔
اگلے ماہ جرمنی میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جن میں میرکل چوتھی مرتبہ ملکی چانسلر منتخب ہونا چاہتی ہیں۔ سی ایس یو بھی باویریا کی پارلیمان میں اپنی حتمی اکثریت قائم رکھنا چاہتی ہے۔
زیہوفر کا آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے کہنا تھا، ’’ہمیں یہ بات یقینی بنانا چاہیے کہ ہم، سی ڈی یو اور سی ایس یو یعنی انگیلا میرکل اور ہورسٹ زیہوفر، مشترکہ طور پر جرمن عوام سے سن 2015 جیسی صورت حال نہ دہرائے جانے کا جو وعدہ کر رہے ہیں، اس وعدے کو عملی شکل دینے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کریں۔‘‘
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔