جرمن حکام اب قانونی طور پر مہاجرین کے موبائل فون کا جائزہ لے کر ان کی حقیقی شناخت اور آبائی وطن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے مجاز ہیں۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے کرسٹوف ہاسلباخ کا تبصرہ:
اشتہار
موبائل فون ریکارڈ کا جائزہ لینا ایک درست اقدام ہے۔ پناہ کے درخواست گزاروں کے لب لہجے کا تجزیہ اور فون کا ریکارڈ دیکھ کر حکام اب ان کی حقیقی شناخت اور آبائی وطن کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ اقدامات کرنے میں جرمنی نے کافی تاخیر کی ہے۔
مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن ادارے (بی اے ایم ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی آنے والے ساٹھ فیصد کے قریب تارکین وطن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہیں۔ زیادہ تر پناہ گزین دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی دستاویزات دوران سفر کھو گئی تھیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت کے پاس قیمتی اسمارٹ فون موجود ہوتے ہیں۔
مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟
01:50
شناخت نہ ظاہر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پناہ کی درخواست دینے والے افراد کو معلوم ہے کہ شامی مہاجرین کو جرمنی میں آسانی سے پناہ مل جاتی ہے۔
کئی دیگر عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین شامی شہری ہونے کا دعویٰ اسی لیے کرتے ہیں۔
جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افراد کی بڑی تعداد کے باعث بی اے ایم ایف کے اہلکاروں پر کافی دباؤ تھا اور ہے، اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی تارکین وطن ایسے فراڈ کر پاتے ہیں۔
جرمن فوج کے ایک اہلکار فرانکو اے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ فرانکو سے انٹرویو لینے والے اہلکار نے اس سے کئی بنیادی سوال پوچھے ہی نہیں تھے۔ اس معاملے کے بعد یہ سوال پیدا ہونا شروع ہوا کہ اگر ایک جرمن اس قسم کا فراڈ کرنے میں کامیاب رہا ہے تو اور کتنے ایسے واقعات رونما ہوئے ہوں گے؟ علاوہ ازیں درجنوں ایسے کیس بھی سامنے آئے کہ ایک ہی تارک وطن نے متعدد جرمن ریاستوں میں رجسٹریشن کراتے ہوئے ہر ماہ ایک سے زائد جگہوں سے سماجی مراعات حاصل کیں۔
لیکن اب ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے متعدد ضوابط متعارف کرائے گئے ہیں۔ شناخت کے بارے میں کسی شک کی صورت میں موبائل فون کا ریکارڈ حاصل کرنا بھی ایسا ہی ایک ضابطہ ہے۔
جرمنی میں پناہ کے حصول کے خواہش مند ایسے افراد کو، جنہوں نے کسی فراڈ سے کام نہیں لیا، اہلکاروں کی جانب سے شک کی صورت میں اپنا موبائل اور تمام ریکارڈ جمع کرا دینا چاہیے۔ اس میں ان کا فائدہ بھی ہے۔
بات ذاتی ڈیٹا اور پرائیویسی کی نہیں ہے اورحقوق بھی صرف مہاجرین اور تارکین وطن ہی کے نہیں ہیں بلکہ انہیں قبول کرنے والے میزبان معاشرے کے بھی ہیں۔ جیسا کہ سیاست دان کہتے ہیں کہ ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ ہمارے ہاں آ کون رہا ہے؟ طویل عرصے تک سیاست دانوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی، لیکن اب آخرکار مہاجرین کو اپنی اصل پہچان بتانا پڑے گی۔
خوش آمدید: جرمنی میں مہاجرین کے لیے منفرد رہائش گاہیں
مہاجرین کی رہائش کے لیے روایتی طور پر خیمے، کنٹینرز اور متروکہ ہارڈ ویئر اسٹورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مہاجرین کی رہائش کے لیے اچھوتے منصوبوں پر غور جاری ہے تاکہ وہ جرمنی میں آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
چھتوں کے اوپر
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی رہائش کے لیے متعدد ماڈل تیار کیے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد شہر میں ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرنا ہے، جہاں کھلا ماحول دستیاب ہو۔ تصویر میں نظر آنے والے اس ماڈل میں عمارتوں کے اوپر رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ دیگر ماڈل فی الوقت خیالی قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
تیرتے ہوئے گھر
جرمنی میں تقریباﹰ 870 بڑے کارگو بحری جہاز استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ انہیں مہاجرین کی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں کا پانی فلٹر کرنے کے بعد ان جہازوں میں بنے مکانات کے آئندہ رہائشیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ مکینوں کے لیے بجلی کا انتظام شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
رہائش کا شاندار خیال
ہینوور شہر میں واقع ڈچ پویلین، جہاں ایکسپو 2000ء نامی عالمی نمائش منعقد کی گئی تھی، اب خالی پڑی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کو بھی مہاجر کیمپ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تیسری منزل پر ایک بڑا گارڈن بھی ہے، جو مہاجرین کی رہائش اور آپس میں میل ملاپ کی خاطر ایک سینٹر کے طور پر اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
بنے بنائے گھر
لکڑی کے بنے بنائے گھروں کے ماڈل کسی بھی خالی مقام پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص دو عمارتوں کے درمیان واقع خالی جگہوں میں ان گھروں کو ضرورت کے مطابق کاٹ کر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مکانات محض دو تین دنوں میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر انہیں سہولت کے ساتھ وہاں سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھر آسانی سے دفاتر میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
باغوں میں تعمیر کردہ گھر
جرمنی میں کئی چھوٹے چھوٹے مکانات باغیوں میں بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کے مالکان انہیں باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں میں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہوتی ہیں۔ لائپزگ یونیورسٹی کے طالب علموں نے تجویز کیا ہے کہ ایسے گھروں کو مہاجرین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت باغیچوں میں قائم یہ رہائش گاہیں بے گھر افراد کی اداسی دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
کار پارکنگ کی عمارتوں میں رہائش
جرمن شہروں میں پبلک پارکنگ کے کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جو مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ شہروں کے وسط میں قائم کردہ پارکنگ کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں مہاجرین کے سینٹرز میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ زیر زمین واقع ان عمارتوں کی کچھ منزلوں کو مہاجر سینٹر بنا دینے کے باوجود انتہائی نچلی منزلوں کو پھر بھی پارکنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
منفرد طرز کے موبائل گھر
ہینوور کے شمال میں واقع ایک پرانا کارگو اسٹیشن کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں بھی مہاجروں کے قیام اور آرام کے لیے عارضی رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہے۔ آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے اس اسٹیشن پر استعمال میں نہ لائی جانے والی بوگیوں کی مدد سے گھروں کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ جرمنی کے تقریباﹰ ہر شہر میں ایسے پرانے بے آباد اسٹیشن اب بھی قائم ہیں، جنہیں مہاجرین کی رہائش گاہوں کے طور پر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔