یورپ میں مہاجرت مخالف ایک گروہ نے ایک کشتی کرائے پر حاصل کر لی ہے، اب وہ بحیرہ روم میں گشت کرتے ہوئے شمالی افریقہ سے یورپ آنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کا راستہ روکے گا۔ اس گروپ کا نعرہ ہے، ’ہم یورپ کو بچانا چاہتے ہیں‘۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ یورپ میں مہاجرین کے خلاف مہم چلانے والے ایک گروپ نے ’یورپ کو بچاؤ‘ کے نعرے کے تحت ’کراؤڈ فنڈنگ‘ کی ایک اسکیم شروع کی تھی، جس کا مقصد ہم خیال لوگوں کی مدد سے رقوم جمع کرنا تھا۔ یہ رقوم دراصل ایک کشتی کو کرائے پر حاصل کرنے کی خاطر جمع کی گئیں۔
’جنریشن آئیڈینٹیٹی‘ Generation Identity نامی اس گروپ نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ 76 ہزار یورو کا چندہ دیں تاکہ اس رقم کی مدد سے ایک کشتی کرائے پر حاصل کرتے ہوئے بحیرہ روم کے راستے شمالی افریقہ سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کا راستہ روکا جائے۔
’جنریشن آئیڈینٹیٹی‘ نے بتایا ہے کہ چالیس میٹر طویل ایک کشتی گزشتہ ہفتے جبوتی سے روانہ ہو گئی۔ یہ کشتی لیبیا کے ساحل کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں گشت کرے گی۔ دوسری طرف کئی مہاجر دوست یورپی گروپوں نے اس منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کی جانا چاہیے نہ کہ ان کے راستے روکے جائیں۔
سمندر میں ڈوبتے ابھرتے تارکینِ وطن
گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں چالیس ہزار تارکینِ وطن کو ساحلی پولیس نے نہیں بلکہ اُن تجارتی بحری جہازوں نے بچایا، جو یورپی یونین کا امدادی مشن مارے نوسٹرم ختم ہونے کے بعد سے باقاعدہ تلاش کر کے تارکینِ وطن کی جانیں بچاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
شکر ہے، بچ گئے
ربڑ کی یہ کشتی اور اِس میں سوار تارکینِ وطن عنقریب ’او او سی جیگوار‘ نامی اس پرائیویٹ بحری تجارتی جہاز کی حفاظت میں ہوں گے، جو عام طور پر بحیرہٴ روم میں واقع تیل کے کنووں تک اَشیائے ضرورت پہنچاتا ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
طوفانی لہروں میں سہارا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’جیگوار‘ جیسے بحری جہازوں کو سمندر کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کو بچانا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے امدادی مشن ’ٹریٹون‘ کے تحت محض چند ایک امدادی بحری جہاز ہی اس کام میں مصروف ہیں اور وہ بھی اٹلی کے ساحلوں سے زیادہ سے زیادہ چھپن کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
ایک اور بے سہارا کشتی
جرمن جہاز راں کرسٹوفر اوپیلوک کے دو بحری جہاز، جو عام طور پر سمندر میں بنے آئل پلیٹ فارمز کو اَشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک پندرہ سو تارکینِ وطن کی جانیں بچا چکے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی تھے، جنہیں وہ نہ بچا سکے۔ ’جیگوار‘ نامی جہاز کا اس الٹی ہوئی کشتی سے سامنا اپریل کے وسط میں ہوا تھا۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
اب سامان میں کمبل بھی
اوپیلوک کے بحری جہاز عام طور پر مالٹا میں لنگر اندز ہوتے ہیں اور وہاں سے لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع آئل پلیٹ فارمز کو ہر قسم کا مطلوبہ سامان پہنچاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جہاز اپنے ساتھ اضافی طور پر اَشیائے خوراک، کمبل اور ادویات بھی رکھنے لگے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
سلامتی کی منزل ابھی دور
’جیگوار‘ کے عرشے پر پہنچ جانے کا مطلب بھی مکمل سلامتی کی منزل تک پہنچ جانا نہیں ہوتا۔ جہاز راں اوپیلوک کے مطابق ’بہت سے تارکینِ وطن، جنہیں ہم پانی سے نکالتے ہیں، اُن کے جسم سرد پانی کی وجہ سے اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ عرشے پر پہنچنے کے چند منٹ کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
غرقابی سے کچھ پہلے
تجارتی بحری جہازوں کے کپتان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ سمندر میں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کریں اور اُن کی جان بچائیں۔ ایسے میں تارکینِ وطن کو لانے والے بحری جہاز جان بوجھ کر اُن روٹس پر سفر کرتے ہیں، جنہیں تجارتی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ تارکینِ وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی بس غرق ہونے ہی والی ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
امدادی مشن میں ایک ایک لمحہ قیمتی
... اور کشتی غرق ہونے کے چند ہی لمحے بعد تارکینِ وطن کھلے سمندر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ’جیگوار‘ بحری جہاز ڈوبتے ہوئے ان انسانوں کی جانیں بچانے اور اٹلی کی ساحلی پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی ایک امدادی مشن مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
7 تصاویر1 | 7
انتہائی دائیں بازو کے اس مہاجر مخالف یورپی گروپ میں شامل افراد کا تعلق فرانس، جرمنی اور اٹلی سے ہے۔ ایک بھرپور مہم کے ذریعے اس گروہ نے کراؤڈ فنڈنگ کے تحت مطلوبہ رقوم جمع کر لی تھی۔
اس گروہ کے ایک منتظم کلیمنٹ گالانٹ کا کہنا ہے کہ وہ ’ایسی نام نہاد تنظیموں کا پول کھولنا چاہتے ہیں، جو انسانوں کی مدد کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے اسمگلنگ مافیا کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسی تنظیموں کے ’اعمال کے خونریز نتائج برآمد‘ ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں اپنے اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے گالانٹ نے کہا، ’’جب غیر قانونی مہاجرین سے بھری کشتیاں یورپی پانیوں میں داخل ہوں گی تو ہمارا مشن یہ ہو گا کہ لیبیا کے ساحلی محافظوں کو مطلع کیا جائے تاکہ وہ آ کر ان مہاجرین کو واپس لے جائیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ جب تک لیبیا کے ساحلی محافظ ان کے ریسکیو کے لیے نہیں پہنچیں گے، تب تک وہ ان غیر قانونی تارکین وطن کی خود حفاظت کریں گے۔ گالانٹ کا کہنا تھا کہ اس طرح وہ یورپ اور ان مہاجرین دونوں کو بچانا چاہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں سال اسی سمندری راستے سے شمالی افریقہ سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے اپنا سفر لیبیا سے شروع کیا تھا۔ یورپی ممالک نے بحیرہ روم میں ان مہاجرین کو بچانے کے لیے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ تاہم ناقدین کے مطابق سمندر میں ایسے ریسکیو کارکنوں کی موجودگی دراصل ایسے مہاجرین کو مزید حوصلہ دیتی ہے کہ وہ بلا خوف و خطر یورپ پہنچنے کا سفر شروع کر دیں۔
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔