1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کو روکنے کے لیے سرحدوں پر فوج بھی تعینات

شمشیر حیدر16 جولائی 2016

سربیا کے وزیر اعظم الیگزینڈر وُچِچ کا کہنا ہے کہ ملک میں مہاجرین کی آمد روکنے کے لیے قومی سرحدوں پر پولیس کے ساتھ ساتھ فوج بھی تعینات کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سربیا کو ’مہاجرین کی پارکنگ‘ نہیں بننے دیا جائے گا۔

Deutschland ungarische Soldaten schließen den Grenzzaun zu Serbien bei Roszke
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی بلغراد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق سربیا کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے ملک میں ستائیس سو کے قریب تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں، جن میں سے 85 فیصد کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے ہے۔ پاکستانی اور افغان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات بہت کم ہیں اور اسی وجہ سے وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

ہنگری نے سربیا سے متصل اپنی سرحد کو بند کر رکھا ہے اور تارکین وطن کو شمالی اور مغربی یورپ کی جانب سفر کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ دوسری جانب سربیا پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ملک میں پھنسے پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے پیش نظر وزیر اعظم الیگزینڈر وُچچ نے ملکی سرحدوں کی کڑی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔

دارالحکومت بلغراد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وُچچ کا کہنا تھا، ’’ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پولیس اور فوج کی مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں۔‘‘ سرب وزیر اعظم نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ ملکی سرحدوں پر کتنے اضافی فوجی تعینات کیے جا رہے ہیں۔

سرب وزیر اعظم نے پناہ گزینوں کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تارکین وطن، جن کے پاس شناختی دستاویزات نہیں ہیں اور جو سربیا میں سیاسی پناہ بھی حاصل نہیں کرنا چاہتے، انہیں تیس دن کے اندر اندر ملک بدر کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یورپی یونین کے رہنماؤں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ مہاجرین کے بحران کا کوئی ’عالمی حل‘ تلاش کریں۔

سربیا ’بلقان روٹ‘ کہلانے والے اس راستے پر واقع ہے جہاں سے گزر کر گزشتہ موسم گرما سے لے کر اب تک لاکھوں تارکین وطن مغربی اور شمالی یورپ پہنچ چکے ہیں۔

یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کی واپسی کا متنازعہ معاہدہ طے پانے کے بعد سے اگرچہ یہ راستے مہاجرین کے لیے عملی طور پر بند ہو چکے ہیں تاہم اب بھی انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے پناہ گزین چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں غیر قانونی طور پر ان ممالک سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سربیا کے حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک ملک میں ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن رجسٹر کیے جا چکے ہیں۔ یوں اس سال اوسطاﹰ یومیہ قریب پانچ سو تارکین وطن سربیا کی ریاستی حدود میں داخل ہوئے۔

ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے

جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین

یورپی یونین پہنچنے کے خواہش مند مہاجرین، سربیا میں پھنس گئے

02:09

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں