مہاجرین کو روکنے کے لیے سرحدی نگرانی فوج کے سپرد، آسٹریا
شمشیر حیدر اے ایف پی
4 جولائی 2017
آسٹرین وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اگر بحیرہ روم سے اٹلی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی نہ ہوئی تو ویانا حکومت عنقریب اطالوی سرحد پر ’بارڈر کنٹرول‘ متعارف کراتے ہوئے سرحدوں کی نگرانی فوج کے سپرد کر دے گی۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آسٹریا کا کہنا ہے کہ اگر بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے شمالی افریقی ممالک سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی نہ ہوئی تو ویانا حکومت جلد ہی اٹلی سے متصل اپنی سرحدوں پر ’بارڈر کنٹرول‘ متعارف کرا دے گی۔
آسٹریا کے وزیر دفاع ہانس پیٹر دوسکوذیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملکی حدود میں مہاجرین کی غیر قانونی آمد روکنے کے لیے سرحدوں کی نگرانی کے لیے فوج تعینات کر دی جائے گی۔ مقامی میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں دوسکوذیل نے کہا، ’’مجھے توقع ہے کہ جلد ہی سرحدی نگرانی شروع ہو جائے گی اور اس سلسلے میں معاونت کے لیے ملکی فوج کی تعیناتی کی درخواست بھی جلد کی جائے گی۔‘‘
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
8 تصاویر1 | 8
ان کا کہنا تھا کہ سرحدی نگرانی شروع کرنے کی وجہ سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد ہے۔ روم حکومت کے مطابق اٹلی میں مزید مہاجرین کو پناہ اور رہائش گاہیں فراہم کرنے کی گنجائش نہیں رہی اور اٹلی کی جانب سے مہاجرین سے متعلق سخت بیانات سامنے آنے کے بعد اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ بڑی تعداد میں تارکین وطن دیگر یورپی ممالک کا رخ کر سکتے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق آسٹریا نے رواں ہفتے اٹلی سے متصل سرحد کی نگرانی موثر بنانے کے لیے مزید ساڑھے سات سو فوجی تعینات کر دیے ہیں۔
سن 2015 میں بلقان روٹ سے آنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے آسٹریا نے ہنگری سے متصل سرحد پر بھی بارڈر کنٹرول متعارف کرایا تھا اور سرحد کو خاردار تاروں کی مدد سے بند کر دیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق بحیرہ روم کے وسطی راستوں کے ذریعے رواں برس کے آغاز سے لے کر اب تک پچاسی ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن لیبیا سے اٹلی پہنچ چکے ہیں۔ اس عرصے کے دوران دو ہزار سے زائد تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی کے خصوصی مندوب برائے وسطی بحیرہ روم نے صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے آسٹریا کے ان اقدامات کے بارے میں کہا، ’’یہ دیرپا نہیں ہیں۔ دوسرے یورپی ممالک کو اٹلی کا ساتھ دینا چاہیے اور مہاجرین کا بوجھ تقسیم کرنا چاہیے۔‘‘