مہاجرین کو روکنے کے لیے نئی یورپی سرحدی فورس کی تشکیل
شمشیر حیدر7 جولائی 2016
یورپی پارلیمان نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے نئی یورپی سرحدی فورس بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ سرحدی محافظ رواں برس ستمبر کے مہینے سے یورپ کی بیرونی سرحدوں، خصوصاﹰ اٹلی اور یونان میں تعینات کیے جا سکتے ہیں۔
اشتہار
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اٹھائیس رکنی یورپی یونین نے گزشتہ ماہ نئے سرحدی پولیس بنانے کی تجویز منظور کی تھی۔ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے تحفظ کے لیے مشترکہ سرحدی محافظ تعینات کرنے کا منصوبہ یونین اور ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد بنیادی اہمیت رکھتا تھا۔
فرانسیسی شہر اسٹراسبُرگ میں ہونے والے یورپی پارلیمان کے اجلاس میں اس فورس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کی گئی جسے اراکین کی بھاری اکثریت نے منظور کر لیا۔ اس منصوبے کی حمایت میں 483 جب کہ مخالفت میں 181 ووٹ ڈالے گئے۔ یورپی پارلیمان کے 48 اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
رائے شماری کے بعد یورپی پارلیمان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا کہ ’ان قوانین کا اطلاق رواں برس موسم خزاں میں کر دیا جائے گا‘۔
مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں
03:23
یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یورپ کی بیرونی سرحدوں پر اس نئی مشترکہ سرحدی فورس کی تعیناتی کا آغاز اس برس ستمبر کے مہینے میں کرنا شروع کیا جائے گا اور اکتوبر کے مہینے تک یہ منصوبہ مکمل کر لیا جائے گا۔ ان اقدامات کا مقصد یورپی ممالک کے آزادانہ سفری معاہدے ’شینگن زون‘ میں نقل و حرکت کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
گزشتہ برس لاکھوں مہاجرین کی یورپ آمد کے بعد یونین میں بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی تھی اور شینگن زون میں شامل کئی یورپی ممالک نے اپنی ملکی سرحدوں پر از سر نو بارڈر کنٹرول کا نظام متعارف کرا دیا تھا۔ ان اقدامات کے بعد شینگن زون میں یورپی باشندوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور تجارت متاثر ہوئی تھی۔
نئے اقدامات کے مطابق یونین کے رکن ممالک اب بھی روزانہ کی بنیادوں پر اپنی ملکی سرحدوں کی حفاظت خود ہی کر سکیں گے تاہم ہنگامی صورت حال میں وہ یورپی یونین کے مشترکہ سرحدی محافظوں کی مدد طلب کر سکیں گے۔ ابتدائی طور پر اس نفری میں پندرہ سو اہل کار شامل کیے گئے ہیں۔
یورپی یونین میں ’فرنٹکس بارڈر ایجنسی‘ کے نام سے پہلے ہی ایک مشترکہ فورس موجود ہے جس کا صدر دفتر پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ہے۔ تاہم نئی فورس کے قیام سے نہ فرنٹیکس کی افرادی قوت میں اضافہ ہو گا بلکہ ان کے اختیارات کا دائرہ کار بھی وسیع ہو جائے گا۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔