مہاجرین کو ریسکیو کرنے والے بحری جہاز کی سرگرمیاں معطل
شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
13 اگست 2017
ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے بحیرہ روم میں مہاجرین کو ریسکیو کرنے کا مشن روک دیا ہے۔ ادارے کے مطابق مہاجرین کو بچانے میں مصروف سب سے بڑے بحری جہاز کو لیبیا کی جانب سے غیر ملکی بحری بیڑوں پر پابندی کے بعد روکا گیا ہے۔
اشتہار
لیبیا کے ساحلوں سے بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچانے کے مشن میں مصروف سماجی ادارے ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے اعلان کیا ہے کہ ریسکیو مشن میں مصروف سب سے بڑے بحری جہاز کی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
اس سماجی ادارے کے مطابق ریسکیو مشن ختم کرنے کا فیصلہ لیبیا کی حکومت کی جانب سے اپنی سمندری حدود میں غیر ملکی بحری جہازوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کے بعد کیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے لکھا، ’’بحیرہ روم میں سماجی تنظیموں پر سخت ہوتی پابندیوں اور یورپی یونین کی جانب سے لوگوں کو لیبیا میں محصور رکھنے کے عزم کے تناظر میں ہم نے اپنی سرگرمیاں روک دی ہیں۔‘‘
جمعرات کے روز لیبیا کی نیوی کے ترجمان جنرل ایوب قاسم کا کہنا تھا کہ لیبیائی سمندری حدود میں غیر ملکی بحری جہازوں پر پابندی کا ہدف وہ سماجی تنظیمیں ہیں ’جو بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کو ریسکیو کرنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کارروائیوں میں مصروف‘ ہیں۔
ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی اس فرانسیسی سماجی تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ بحیرہ روم میں دیگر ریسکیو آپریشنز میں معاونت فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھی گی تاہم اس کا سب سے بڑا بحری جہاز کارروائیوں میں حصہ نہیں لے گا۔ اس بحری جہاز نے صرف مئی کے ایک مہینے میں پندرہ سو سے زائد تارکین وطن کو سمندر برد ہونے سے بچایا تھا۔
ادارے کی اطالوی شاخ کے صدر لوریس ڈے فلیپی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’یورپی ریاستیں اور لیبیا کے حکام مشترکہ طور پر ان لوگوں کے راستے روک رہے ہیں جو تحفظ اور پناہ کے متلاشی ہیں۔ لوگوں کی زندگیوں اور ان کے وقار پر کیا گیا یہ حملہ ناقابل قبول ہے۔‘‘
حالیہ مہینوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے سرگرم سماجی ادارے مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔ یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک اور مہاجرین مخالف اطالوی سیاست دان ان ریسکیو مشنز کو ’مہاجرین کو یورپ پہنچانے کے لیے ٹیکسی سروس‘ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔