’مہاجرین کو متبادل سفری دستاویزات کے ذریعے ملک بدر کیا جائے‘
شمشیر حیدر اے ایف پی
21 جولائی 2017
جرمنی سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ سال رواں کے پہلے چھ ماہ کے دوران جرمنی سے محض ساڑھے بارہ ہزار افراد کو ملک بدر کیا جا سکا۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے وفاقی جرمن وزارت داخلہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمنی بھر سے قریب ساڑھے بارہ ہزار غیر ملکیوں کو واپس ان کے آبائی ممالک میں بھیجا گیا۔ گزشتہ پورے سال کے دوران جرمنی سے ملک بدر کیے گئے تارکین وطن کی مجموعی تعداد پچیس ہزار سے کچھ زائد رہی تھی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والوں کی تعداد گزشتہ برس کے اسی دورانیے سے بھی کم رہی ہے۔ 2016ء میں یکم جنوری اور تیس جون کے درمیانی عرصے میں جرمنی سے قریب چودہ ہزار افراد ملک بدر کیے گئے تھے۔
جرمنی کی وفاقی ریاستوں کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس کے سربراہ اور صوبے سیکسنی کے وزیر داخلہ مارکوس اُلبِگ نے تجویز پیش کی ہے کہ ایسے تارکین وطن کو، جنہیں لازمی طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے، ان کے ملکی پاسپورٹوں کی بجائے متبادل سفری دستاویزات کی مدد سے ملک بدر کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جرمنی سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں کی رفتار تیز کرنے کے لیے ایسے غیر ملکیوں کے آبائی وطنوں کی حکومتوں کے جاری کردہ پاسپورٹوں کی بجائے ان کے سفارت خانوں کی جاری کی گئی ایسی سفری دستاویزات استعمال میں لائی جائیں، جن کے خاتمے کی کوئی میعاد نہ ہو لیکن جنہیں صرف ایک بار یک طرفہ سفر کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اُلبِگ نے یہ بھی بتایا کہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مختلف ممالک کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے۔
تربیت کے بعد مہاجرین کی ملک بدری ۔ جرمن کمپنیوں کی مشکل
03:48
This browser does not support the video element.
دوسری جانب ایسے تارکین وطن، جنہیں جرمنی سے لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے، کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں مہاجرت اور تارکین وطن کے وفاقی ادارے (بی اے ایم ایف) کے مطابق اس برس کی پہلی ششماہی میں مزید اٹھارہ ہزار تارکین وطن کو لازماﹰ طور پر ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے بعد ایسے تارکین وطن کی مجموعی تعداد سوا دو لاکھ سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
اس سال اب تک ایسے غیر ملکیوں کی تعداد میں بھی تئیس فیصد اضافہ ہوا ہے، جن کو جاری کی گئی ’ڈُلڈُنگ‘ یعنی ان کی جرمنی سے ملک بدری پر عائد عارضی پابندی بھی ختم کر دی گئی ہے اور انہیں اب لازماﹰ جرمنی سے واپس اپنے آبائی وطنوں کو لوٹنا ہو گا۔ بی اے ایم ایف کے مطابق جرمنی میں مقیم ایسے تارکین وطن کی تعداد قریب سڑسٹھ ہزار ہے۔
جرمنی کی وفاقی ریاستوں کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس کے سربراہ نے لازمی طور پر ملک بدر کیے جانے والے غیر ملکیوں کے جرمنی میں مزید قیام کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک اور تجویز دیتے ہوئے کہا، ’’ایسے غیر ملکیوں کو، جنہیں جرمنی میں قیام کا حق حاصل نہیں ہے، حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مالی معاونت بھی نہیں دی جانا چاہیے۔‘‘
جرمنی سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں رکاوٹوں کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ ان تارکین وطن کے آبائی ممالک ان کی وطن واپسی میں دلچسپی نہیں لیتے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘