پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ ’نفرت انگیز دہشت گردانہ اعمال‘ کے خاتمے کی خاطر یورپی باشندوں کو مہاجرین کا کھلے دل سے استقبال کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ محبت سے ہی نفرت کا خاتمہ ممکن ہے۔
اشتہار
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ ’نفرت انگیز دہشت گردانہ اعمال‘ سے بچنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے جائیں۔ ہفتے کی دن اپنے ایک بیان میں پوپ نے مزید کہا، ’’میں آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ آپ اپنے گھروں اور کمیونٹیوں میں مہاجرین کا استقبال کریں۔‘‘
پوپ فرانس کا کہنا تھا کہ مہمان نوازی اور محبت اس لیے ضروری ہے تاکہ یورپ آنے کے بعد ان کا پہلا تجربہ برا نہ ہو، انہیں اپنی راتیں سرد موسم میں سڑکوں پر نہیں گزارنی چاہییں بلکہ انہیں انسانوں کی طرف سے گرمجوشی ملنا چاہیے۔‘‘
پوپ فرانسس نے شورش زدہ اور غریب ممالک سے مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کے لیے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس وقت یورپ کو مہاجرین کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین یورپ پہنچ چکے ہیں جبکہ یورپی حکومتیں اس بحران کے حل کی کوشش میں مشترکہ و متقفہ حکمت عملی اختیار کرنے کے قابل نہیں ہو سکی ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت نے مہاجرین کے حوالے سے فراخدلانہ پالیسی اختیار کی تھی، جس کی وجہ سے نہ صرف عوام، ان کے سیاسی اتحاد میں شامل سیاستدان بلکہ کئی یورپی رہنما بھی ان سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ تاہم میرکل کا کہنا ہے کہ ان کا ملک مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پوپ فرانسس نے مہاجرین کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یاد رکھنا چاہیے کہ محبت اور شقفت سے ہی نفرت اور دہشت گردانہ اعمال کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے، ’’افسوسناک بات ہے کہ دنیا بھر میں 65 ملین سے زائد افراد اپنے گھروں سے مہاجرت اختیار کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد ہمارے تصورات سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد اٹلی کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔‘‘
خوش آمدید: جرمنی میں مہاجرین کے لیے منفرد رہائش گاہیں
مہاجرین کی رہائش کے لیے روایتی طور پر خیمے، کنٹینرز اور متروکہ ہارڈ ویئر اسٹورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مہاجرین کی رہائش کے لیے اچھوتے منصوبوں پر غور جاری ہے تاکہ وہ جرمنی میں آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
چھتوں کے اوپر
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی رہائش کے لیے متعدد ماڈل تیار کیے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد شہر میں ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرنا ہے، جہاں کھلا ماحول دستیاب ہو۔ تصویر میں نظر آنے والے اس ماڈل میں عمارتوں کے اوپر رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ دیگر ماڈل فی الوقت خیالی قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
تیرتے ہوئے گھر
جرمنی میں تقریباﹰ 870 بڑے کارگو بحری جہاز استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ انہیں مہاجرین کی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں کا پانی فلٹر کرنے کے بعد ان جہازوں میں بنے مکانات کے آئندہ رہائشیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ مکینوں کے لیے بجلی کا انتظام شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
رہائش کا شاندار خیال
ہینوور شہر میں واقع ڈچ پویلین، جہاں ایکسپو 2000ء نامی عالمی نمائش منعقد کی گئی تھی، اب خالی پڑی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کو بھی مہاجر کیمپ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تیسری منزل پر ایک بڑا گارڈن بھی ہے، جو مہاجرین کی رہائش اور آپس میں میل ملاپ کی خاطر ایک سینٹر کے طور پر اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
بنے بنائے گھر
لکڑی کے بنے بنائے گھروں کے ماڈل کسی بھی خالی مقام پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص دو عمارتوں کے درمیان واقع خالی جگہوں میں ان گھروں کو ضرورت کے مطابق کاٹ کر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مکانات محض دو تین دنوں میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر انہیں سہولت کے ساتھ وہاں سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھر آسانی سے دفاتر میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
باغوں میں تعمیر کردہ گھر
جرمنی میں کئی چھوٹے چھوٹے مکانات باغیوں میں بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کے مالکان انہیں باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں میں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہوتی ہیں۔ لائپزگ یونیورسٹی کے طالب علموں نے تجویز کیا ہے کہ ایسے گھروں کو مہاجرین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت باغیچوں میں قائم یہ رہائش گاہیں بے گھر افراد کی اداسی دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
کار پارکنگ کی عمارتوں میں رہائش
جرمن شہروں میں پبلک پارکنگ کے کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جو مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ شہروں کے وسط میں قائم کردہ پارکنگ کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں مہاجرین کے سینٹرز میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ زیر زمین واقع ان عمارتوں کی کچھ منزلوں کو مہاجر سینٹر بنا دینے کے باوجود انتہائی نچلی منزلوں کو پھر بھی پارکنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
منفرد طرز کے موبائل گھر
ہینوور کے شمال میں واقع ایک پرانا کارگو اسٹیشن کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں بھی مہاجروں کے قیام اور آرام کے لیے عارضی رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہے۔ آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے اس اسٹیشن پر استعمال میں نہ لائی جانے والی بوگیوں کی مدد سے گھروں کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ جرمنی کے تقریباﹰ ہر شہر میں ایسے پرانے بے آباد اسٹیشن اب بھی قائم ہیں، جنہیں مہاجرین کی رہائش گاہوں کے طور پر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
7 تصاویر1 | 7
پوپ فرانسس کے والد اٹلی سے ہجرت کے لیے ارجنٹائن جا بسے تھے۔ مہاجرین کے اس بحران میں انہوں نے ہمیشہ ہی مہاجرین کی مدد کی تلقین کی ہے۔ رواں برس کے آغاز پر انہوں نے یونان کے ایک مہاجر کیمپ کا دورہ بھی کیا تھا اور واپسی پر مہاجرین کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ دیکھاتے ہوئے وہ بارہ مہاجرین کو اپنے ساتھ اٹلی لے گئے تھے۔