’مہاجرین کو پناہ دینے پر مجبور کرنا یکجہتی نہیں تشدد ہے‘
شمشیر حیدر
8 ستمبر 2017
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے یورپی یونین کے مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے کو پھر سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہنگری کو مہاجرین قبول کرنے پر مجبور کرنا یکجہتی نہیں بلکہ ’تشدد‘ کے مترادف ہے۔
اشتہار
سن 2015 میں یورپی یونین نے ترکی اور یونان پر مہاجرین کا بوجھ کم کرنے کے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کو یونین کے دیگر رکن ممالک میں منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
تاہم ہنگری اور سلوواکیہ نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اعلی یورپی عدالت کا رخ کیا تھا۔ یورپی عدالت انصاف نے اپنے حاليہ فیصلے میں ہنگری اور سلوواکیہ کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یونین کو رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کرنے کا حق حاصل ہے۔
کروشیا کی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس سربیا بھیج دیتی ہے
01:50
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے اس فیصلے کے ردِ عمل میں کہا کہ ’یورپی یونین کے رکن کے طور پر عدالت کا فیصلہ قبول کرنا پڑے گا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ہنگری مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کرنے کی اپنی پالیسی تبدیل کر دے گا‘۔
یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود ینکر نے اس فیصلے کے بعد اوربان کے نام لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ یکجہتی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنی پسند کے فیصلے قبول کر لیں اور دیگر مسترد۔
اوربان نے یُنکر کے اس بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کے خط میں یکجہتی کے اصول کی جو تشریح کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہنگری کو اس کے عوام کی مرضی کے خلاف ’تارکین وطن کا ملک‘ بنا دیا جائے۔ میری نظر میں یہ یکجہتی نہیں، تشدد ہے۔‘‘
ہنگری کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کیے گئے اس ردِ عمل میں اوربان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر یورپی ممالک کے برعکس ہنگری کا نوآبادیاتی ماضی نہیں ہے، اس لیے مہاجرین کو پناہ دینے کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہنگری پر نہیں بلکہ دیگر ممالک کو اپنی نوآبادی بنانے والے یورپی ممالک پر ہی عائد ہوتی ہے۔
سن 2015 میں لاکھوں تارکین وطن اور مہاجرین ہنگری سے گزرتے ہوئے جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک پہچنے تھے۔ بعد ازاں بوداپسٹ حکومت نے ملکی سرحدیں خار دار تاریں لگا کر بند کر دی تھیں اور سرحدی نگرانی کے لیے خصوصی اہلکار تعینات کیے تھے۔
گزشتہ ہفتے ہنگری نے سرحدی باڑ اور نگرانی پر اٹھنے والے اخراجات کا نصف بل (آٹھ سو ملین یورو) یورپی کمشن کو بھیج دیا تھا۔ ینکر کو دیے گئے تازہ جواب میں بھی اوربان نے یہ رقم ادا کیے جانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا، ’’سرحدی باڑ اور نگرانی سے نہ صرف ہنگری کے شہریوں کا تحفظ ممکن ہوا ہے بلکہ آسٹریا، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے شہری بھی ان اقدامات سے مستفید ہو رہے ہیں۔‘‘
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔