مہاجرین کو ہرگز لیبیا واپس نہ بھیجا جائے، یو این ایچ سی آر
19 مئی 2019
یورپی یونین تارکین وطن کی یورپ آمد کا سلسلہ روکنے کے لیے لیبیا پر بہت زیادہ انحصار کرتا رہا ہے۔ لیکن اس وقت لیبیا میں تارکین وطن زیادہ خطرات کا شکار ہیں کیونکہ باغی فوج دارالحکومت طرابلس پر قبضے کی کوششوں میں ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ( یواین ایچ سی آر) کی طرف سے آج اتوار 19 مئی کو کہا گیا ہے کہ بحیرہ روم میں بچائے گئے مہاجرین کو ہر گز لیبیا واپس نہ بھیجا جائے۔ جرمنی میں اس ادارے کے سربراہ ڈومینک بارٹش نے اخبار ویلٹ ام زونٹاگ سے باتیں کرتے ہوئے کہا، ’’لیبیا کی کوسٹ گارڈ کی طرف سے بحیرہ روم سے بچائے جانے والے تارکین وطن کو کسی صورت بھی واپس لیبیا میں قائم حراستی مراکز واپس نہ لایا جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’کسی طرح کا سیاسی فائدہ، بشمول یورپی یونین کی جانب سے، کیمپوں کی مصیبت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جانا چاہے۔‘‘
جرمنی میں یو این ایچ سی آر کے سربراہ کے مطابق لیبیا میں بڑھتے ہوئے تنازعے کا مطلب ہے کہ یہ حراستی مراکز تارکین وطن کے لیے مزید خطرناک ہوتے جا رہے ہیں، ’’کیمپوں کے اندر موجود لوگوں کی انسانی حوالے سے صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ وہاں خوراک کی قلت ہے، پانی کی کمی ہے اور بہت سے لوگوں کو فوری طبی مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت طرابلس میں موجود حراستی مراکز مسلح گروپوں کے درمیان جاری لڑائی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘‘
لیبیا میں کمانڈر خلیفہ حفتر کی سربراہی میں خود ساختہ لیبیئن نیشنل آرمی نے چار اپریل کو دارالحکومت طرابلس پر قبضے کے لیے حملوں کا آغاز کیا تھا۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اتحادی حکومت کی فورسز اس گروپ کے ساتھ جنگ میں پھنسی ہوئی ہيں۔ یہ لڑائی طرابلس کے گرد ونواح میں جاری ہے، خاص طور پر جنوبی مضافات میں۔ دوسری طرف دہشت گرد گروپ داعش نے بھی ملک میں حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے رواں ہفتے کہا ہے کہ وہ خلیفہ حفتر سے ملاقات کریں گے تاکہ امن کا راستہ تلاش کیا جا سکے۔
یو این ایچ سی آر کے جرمنی میں سربراہ ڈومینک بارٹش نے جرمن اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے یورپی یونین کی حکومتوں سے درخواست کی کہ وہ بحیرہ روم میں نجی طور پر مہاجرین کو بچانے والی تنظیموں کو ’مجرموں‘ کے طور پر نہ دیکھیں۔ بارٹش کے بقول ان غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں کی وجہ سے ہزاروں افراد موت سے بچے ہیں۔
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔